شهید ابراهیم هادی

ابراہیم ہادی ہی کیوں؟!

 

۲۰۰۷؁ کی گرمیوں کا موسم تھا۔ میں  تہران کی مسجد امین الدولہ میں مغرب و عشاء کی نماز باجماعت پڑھ رہا تھا۔مجھ پر عجیب سی حالت طاری تھی۔ مسجد میں نماز پڑھنے والے تمام لوگ؛ علماء اور ممتاز علمی شخصیات تھیں۔ میں جماعت کی دوسری صف کی دائیں طرف ایک کونے میں کھڑا تھا۔نماز مغرب کے بعد جب میں نے اپنے اطراف پر نگاہ دوڑائی تو حیران رہ گیا۔ نماز جماعت کے  جگہ چاروں طرف سے پانی میں گھر چکی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے سمندر کے بیچوں بیچ کوئی جزیرہ کھڑا ہو۔ امام جماعت ایک معمر اور نورانی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے سفید عمامہ پہن رکھا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنی بات کا آغاز کیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک معمر شخص سے پوچھا: ’’کیا آپ امام جماعت کو جانتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’یہ حاج شیخ محمد حسین زاہد ہیں، آغا حق شناس اور حاج آغا مجتہدی کے استاد۔‘‘ میں نے شیخ حسین زاہد کی روحانی عظمت اور مرتبے کے بارے میں پہلے ہی سے کافی کچھ سن رکھا تھا اسی لیے پوری توجہ سے ان کی باتیں سننے  لگا۔ پوری محفل پر ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب کی نظریں انہی پر مرکوز تھیں۔ انہوں نے عرفان و اخلاق کے حوالے سے کچھ مطالب سامعین کے گوش گزار کرتے ہوئے فرمایا: ’’دوستو! عزیزو! لوگ ہمیں عرفان و اخلاق کے نمونے اور نہ جانے کیا کیا سمجھتےہیں لیکن میرے عزیز دوستو! عملی اخلاق وعرفان کی نمونہ ہستیاں تو دراصل یہ لوگ ہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک بڑی سے تصویر ہاتھ میں اٹھائی۔ میں اپنی جگہ سے تھوڑا سا بلند ہو گیا تا اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تصویر میں ایک لمبی داڑھی والے مرد کا چہرہ نظر آ رہا تھا جس نے بھورے رنگ کی جرسی پہن رکھی تھی۔ میری نگاہیں تصویر پر گڑی کی گڑی رہ گئیں۔ میں نے اسے مکمل طور پر پہچان لیا تھا۔ اس کے چہرے کو میں نے بارہا دیکھا تھا۔ مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ یہ وہی ہے۔ ابراہیم، ابراہیم ہادی! شیخ حسین زاہد کی باتوں پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ عرفان و اخلاق کے ایسے استاد تھے کہ جن کے سامنے بہت سے علماء نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا اور وہ تھے کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں!؟ وہ ابراہیم کا تعارف اخلاق عملی کے استادکے طور پر کروا رہے تھے؟! اسی وقت میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’شیخ زاہد حسین تو۔۔۔ وہ تو کئی سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں!‘‘ گھبراہٹ سےمیری آنکھ کھل گئی۔ وہ ۱۱ اگست ۲۰۰۷؁ کی سحر تھی۔ اتفاق سے اس روز رجب کی ۲۷ تاریخ تھی جو  عید مبعث پیغمبر اکرمﷺ کا دن ہے۔ یہ سچا خواب تھا جس نے میرے بدن پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ میں نے ایک کاغذ اٹھایا اور خواب میں جو کچھ دیکھا اور سنا تھا جلدی سے اسے  لکھ ڈالا۔ میری نیند اڑ چکی تھی اور ابراہیم ہادی کے  بارے میں جتنے بھی واقعات میں نے سن رکھے تھے وہ میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔

****** 

میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ رمضان المبارک ۱۳۷۳؁ھ کی آخری رات کو میں مسجد الشہداء میں تھا۔ہم جنگ کے دنوں کے کچھ پرانے دوست مل کر ابراہیم ہادی کے گھر گئے تھے۔ ابراہیم کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کی رسومات ادا کی  جا رہی تھیں۔ ان کا گھر مسجد کے عقب میں گلی شہید موافق میں واقع تھا۔ حسین اللہ کرم صاحب نے شہید ہادی کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔ ان کے واقعات بہت عجیب و غریب تھے۔ایسے واقعات میں نے اس وقت تک کسی سے بھی نہیں سنے تھے۔ اس رات لطفِ خداوندی میرے شامل حال ہوا۔ میں نے کبھی جنگ نہ دیکھی تھی۔ اگرچہ ابراہیم ہادی کی شہادت کے وقت میں سات سال کا تھا، مگر یہ خدا کی مرضی تھی کہ میں اس محفل میں شریک رہوں تاکہ اس کے ایک خالص بندے کو اچھی طرح پہچان سکوں۔ یہ باتیں کافی عرصے تک میرے ذہن پر چھائی رہیں۔ مجھے یقین نہیں ہوتا تھا کہ اس قدر معرکہ آرائیاں کرنے والا جنگجو بہادر ایسی گمنامی میں چلا جائے! اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ تھی کہ اس نے خود خدا سے دعا کی تھی کہ گمنام ہی رہے۔ کئی برس گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک اس کا جسد نہیں مل سکا اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی اطلاع مل سکی۔ میں اپنی تمام جماعتوں اور سارے طلاب کو اس کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔

******

اذانِ فجر میں ابھی کچھ وقت پڑا تھا۔ میری آنکھوں سےنیند بھی غائب ہو چکی ہے۔ میں یہ جاننے کے لیے بےتاب تھا کہ شیخ زاہد نے ابراہیم کو اخلاق عملی کا مثالی نمونہ کیوں کہا تھا؟ اگلے روز میں قبرستان ابن بابویہ میں شیخ حسین زاہد کی قبر پر چلا گیا۔ ان کے چہرے[1] پر نگاہ پڑی تو اپنے خواب کی سچائی کا یقین ہو گیا۔ اب مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ عرفاء کو پہاڑوں  اور خانقاہوں کے حجروں میں نہیں ڈھونڈنا چاہیے بلکہ یہ لوگ ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں اور ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔ میں اسی روز شہید ہادی کے ایک دوست کے پاس چلا گیا اور اس سے شہید ہادی کے نزدیکی دوستوں کے فون نمبرز اور گھروں کے پتے لے لیے۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ ابراہیم ہادی کو پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز سے جاننے کی کوشش کروں گا۔ میں نے اس سلسلے میں خدا سے توفیق بھی طلب کی۔ شاید یہ وہ ذمہ داری ہے جو خداوند متعال نے اپنے مخلص بندوں کی شناخت کروانے کے لیے ہمارے کندھوں پر ڈال رکھی ہے۔

 

[1]ایران میں قبور کے کتبوں پر عموماً مرحوم کی تصویر بھی کندہ کروا لی جاتی ہے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location