شهید ابراهیم هادی

سوانح حیات 

ابراہیم ۲۱ اپریل ۱۹۵۷؁ کو خراسان چوک کے نزدیک واقع محلہ شہیدآیت اللہ سعیدی میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھے لیکن اس کے باوجود ان کے والد محمد حسین مشہدی ان سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے تھے۔ ابراہیم کو بھی اپنے باپ کی قدر معلوم تھی، جنہوں نے ایک دکان چلا کر اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کر رکھی تھی۔ ابراہیم ابھی نوجوان ہی تھے کہ انہیں یتیمی کا تلخ ذائقہ چکھنا پڑا۔ ان کی زندگی میں یہی وہ وقت تھا  کہ جب انہوں نے عظیم لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزارنا شروع کی۔ پرائمری تک مدرسہ طالقانی میں پڑھا جبکہ ہائی کلاسز کے لیے مدرسہ ابوریحان اور کریم خان زند میں زیرِ تعلیم رہے۔ 1976؁ میں ادب میں انٹرمیڈیٹ کی سند لی۔ انہوں نے کالج کے آخری دنوں ہی میں غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ بھی شروع کر دیا تھا۔ انجمن جوانانِ اسلامی میں شمولیت اور بے مثال استاد علامہ محمد تقی جعفری جیسی عظیم شخصیت کی شاگردی اور ہمراہی نے ابراہیم کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دوران ابراہیم نے اپنی شجاعت و بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ بازارِ تہران میں کام کاج بھی کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد جسمانی تربیت کے ادارے میں  ملازمت شروع کی مگر پھر تعلیم و تربیت کے محکمے میں منتقل ہو گئے۔ اس دوران وہ ایک جانثار استاد کی طرح اس سرزمین کے بیٹوں کی تربیت میں مشغول رہے۔ وہ کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اپنے کھیل کا آغاز ایران کے قدیم کھیل پہلوانی سے کیا۔ وہ والی بال اور کشتی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کسی بھی میدان میں پیچھے نہ ہٹتے اور حریف کا مردانہ وار مقابلہ کرتے۔ ان کی مردانگی کے جوہر  بازی دراز اور گیلان غرب[1]کی فلک شگاف چوٹیوں سے لے کر جنوب کے جھلستے ہوئے صحراؤں تک دیکھتے جا سکتے ہیں۔ ان کی شجاعت و بہادری کی داستانیں آج تک اس علاقے میں موجود ان کے جنگی ساتھیوں کے ذہنوں میں موجزن ہیں۔ معرکہ و الفجر ابتدائی کے دوران وہ کمیل اور حنظلہ بٹالینزکے جوانوں کے ساتھ فکہ کی خندقوں میں پانچ روز تک محاصرے میں رہے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہ ڈالے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بالآخر 11 فروری 1983؁ کو اپنے باقی بچ جانے والے جوانوں کو پیچھے بھیجنے کے بعد وہ تن تنہا اپنے خدا کے ساتھ ہو لیے۔ اس کے بعد کسی نے انہیں نہ دیکھا۔ انہوں نے خدا سے ہمیشہ دعا کی تھی کہ وہ گمنام ہی رہیں، اس لیے کہ گمنامی خدا کے محبوب دوستوں کی صفت ہے۔ خدا نے بھی ان کی دعا قبول کر لی۔ برسوں ہو گئے، آج بھی ابراہیم فکہ میں گمنام اور لاپتا ہیں تا کہ راہیانِ نور کے لیے ایک سورج کی طرح چمکتے رہیں۔

[1]ایران کے دو شہر

 

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location