باپ کی محبت
ہم تہران کے خراسان چوک کے نزدیک ہی واقع ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ ۲۱ اپریل ۱۹۵۷ کا دن تھا۔ ہمارے والد کچھ دنوں سے کافی خوش تھے۔ خدا نے اس دن انہیں ایک بیٹا عطا کیا تھا۔ وہ ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔ اگرچہ گھر میں پہلے سے تین بیٹے اور ایک بیٹی موجود تھی مگر اس نومولود کے لیے ہمارے والد خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ نومولود کافی خوبصورت تھا۔ انہوں نے بچے کا نام بھی رکھ دیا: ابراہیم۔ ہمارے والد نے اس بچے کا نام ایسے پیغمبر کے نام پر رکھا تھا جو صبر، شجاعت، توکل اور توحید کا مظہر تھے۔ یہ نام واقعاً ابراہیم پر جچتا بھی تھا۔ ہمارے رشتہ دار اور دوست احباب جب بھی ہمارے والد کو دیکھتے تو کہتے: ’’حسین صاحب! آپ کے پہلے بھی تین بیٹے ہیں تو پھر اس بیٹے کے لیے اتنی زیادہ خوشی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ والد ایک خاص اطمینان سے جواب دیتے: ’’میرا یہ بیٹا غیر معمولی انسان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا ابراہیم خدا کا خالص بندہ ہو گا۔ یہ میرا نام بھی زندہ رکھے گا۔‘‘ وہ سچ کہتے تھے۔ ابراہیم کے لیے ہمارے والد کی محبت بہت ہی حیران کن تھی۔ اگرچہ ابراہیم کے بعد خدا نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور بھی اس خاندان کو عطا فرمائے مگر ابراہیم کے لیے والد کی محبت میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ہوئی۔ ابراہیم نے اپنی پرائمری کی تعلیم زیبا روڈ پر واقع طالقانی سکول میں حاصل کی۔ وہ بہت اچھے اخلاق کا مالک تھا۔پرائمری سکول کے دوران بھی اس کی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔ سکول کے زمانے میں ہی ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست کو بتا رہا تھا: ’’میرے بابا بہت اچھے انسان ہیں۔ اب تک وہ کئی بار خواب میں امام زمانہ (عج) کی زیارت کر چکے ہیں۔‘‘ جن دنوں ابراہیم کو زیارت کربلا کا کافی اشتیاق تھا، انہی دنوں اسے خواب میں حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت ہوئی، جو اسے ملنے آئے تھے اور انہوں نے اس سے بات بھی کی تھی۔ پرائمری تعلیم کے آخری سال اس نے اپنے دوستوں سے کہا تھا: ’’میرے بابا کہتے ہیں کہ آغا خمینی، جنہیں شاہ[1] نے کئی سالوں سے جلاوطن کر رکھا ہے، بہت ہی اچھے انسان ہیں۔‘‘ میرے بابا یہ بھی کہتے ہیں: ’’ہم سب کو آغا خمینی کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ ان کے فرامین امام زمانہ (عج) کے فرامین کی طرح ہیں۔‘‘ اس کے دوست جواب میں کہتے: ’’ابراہیم، آئندہ ایسی بات نہ کرنا۔ پرنسپل تمہیں سکول سے نکال دیں گے۔‘‘ شاید ابراہیم کے دوستوں کے لیے یہ باتیں عجیب تھیں لیکن ابراہیم اپنے بابا کی باتوں پر مکمل یقین رکھتا تھا۔