شهید ابراهیم هادی

رزقِ حلال

پیغمبر اعظم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: ’’اپنی اولاد کو اچھا انسان بننے میں ان کی مدد کرو کیونکہ ہر شخص اپنی اولاد سے نافرمانی کو دور کر سکتا ہے۔[1]‘‘

اسی لیے ہمارے بابا نے ابراہیم اور دوسرے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہمارے بابا بہت متقی انسان تھے۔ وہ باقاعدگی سے مسجد اور دعائیہ محافل میں جاتے تھے اور خاص طور پر رزقِ حلال کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ پیغمبر اکرم ﷺ کے اس فرمان کو اچھی طرح جانتے تھے: ’’عبادت کے دس اجزا ہیں جن میں نو اجزاء فقط رزقِ حلال کمانے سے حاصل ہوتے ہیں۔[2]‘‘ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں محلہ امیریہ (شاپور) کے کچھ آوارہ اور اوباش لوگوں نے بابا کو کافی تنگ کیا اور انہیں اپنا حلال پیشہ نہ چلانے دیا۔  مجبوراً بابا نے اپنے والد سے میراث میں ملی ہوئی دکان بیچی اور قند [3] کے کارخانے میں کام کرنے لگے۔ وہ وہاں مزدوری کرتے تھے اور  صبح سے شام تک بھٹی کے پاس کھڑے رہتے۔ انہی دنوں میں انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا۔ ابراہیم اکثر کہا کرتا: ’’اگر میرے بابا نے  اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے تو وہ ان مشکلات ہی کی بدولت تھی جو انہوں نے رزقِ حلال کمانے کے لیے برداشت کیں۔‘‘ جب بھی وہ اپنے بچپن کو یاد کرتا تو یہی کہا تھا: ’’میرے بابا میرے ساتھ حفظ قرآن کے لیے جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ مسجد میں لے جاتے تھے۔ زیادہ تر ہم سرچشمہ چوک سے تھوڑا ٓگے واقع مسجد آیت اللہ نوری میں جایا کرتے تھے۔‘‘ وہاں انجمن حضرت علی اصغر علیہ السلام کے اجتماع ہوتے تھے۔ میرے بابا اس انجمن کا خادم ہونے کا اعزاز رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پرائمری سکول کے انہی آخری دنوں میں ابراہیم نے کوئی ایسا کام کر دیا کہ بابا کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے کہہ دیا: ’’باہر نکل جاؤ، ابراہیم! اور رات تک واپس نہ آنا۔‘‘ ابراہیم رات تک گھر نہ لوٹا۔ گھر والے سارے پریشان تھے کہ اس نے دن کا کھانا کہاں کھایا ہو گا لیکن بابا کے سامنے کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ رات کو ابراہیم واپس آ گیا اور ادب سے سب کو سلام کیا۔ میں نے فوراً پوچھا: ’’ بھائی، دن کا کھانا کھایا یا نہیں؟‘‘ بابا جو ابھی تک غصے میں لگ رہے تھے لیکن ابراہیم کے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔ ابراہیم نے آرام سے جواب دیا: ’’گلی میں جا رہا تھا تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت نے کافی سارا سامان خرید رکھا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اور کیسے گھر جائے۔ میں نے اس کی مدد کی اور اس کا سامان اس کے گھر پہنچا دیا۔  اس نے میرا بہت زیادہ شکریہ ادا کیا اور پانچ ریال کا ایک سکہ مجھے دے دیا۔ میں وہ سکہ لینا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے بہت زیادہ اصرار کیا۔ مجھے بھی یقین تھا کہ یہ پیسے حلال کے ہیں کیونکہ میں نے اس بوڑھی عورت کے لیے مشقت اٹھائی تھی۔ ظہر کے وقت انہی پیسوں سے روٹی خرید کر کھا لی تھی۔‘‘ بابا نے جب یہ بات سنی تو ایک مسکراہٹ سے اپنی ناراضگی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ خوش تھے کہ ان بیٹے نے باپ کا دیا ہوا سبق صحیح یاد رکھا ہوا ہےا ور رزق حلال کو اہمیت دیتا ہے۔ ابراہیم سے بابا کی دوستی باپ بیٹے کے تعلق سے بڑھ کر تھی۔ ان دونوں کے درمیان عجیب و غریب قسم کی محبت پائی جاتی تھی جس کا نتیجہ ہمیں اس بیٹے کی شخصیت کی نشوونما میں نظر آتا ہے، لیکن باپ بیٹے کا یہ دوستانہ تعلق زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ ابراہیم ابھی نوجوانی ہی کی عمر میں تھا کہ اسے اپنے بابا کی شیرین رفاقت سے محروم ہونے کا تلخ ذائقہ چکھنا پڑا۔ ایک غم انگیز غروب کے بعد اس نے اپنے اوپر یتیمی کا گھور اندھیرا محسوس کیا۔ اس کے بعد اس نے عظیم لوگوں کی طرح اپنی زندگی کو آگے بڑھایا۔ انہی برسوں میں اس کے اکثر دوست اور جاننے والے اسے کہتے رہتے کہ اسے کھیلوں کے شعبے میں جانا چاہیے۔ اس نے بھی ان کی بات کو قبول کر لیا۔

 

[1]أعينوا أولادكم على البرّ من شاء إستخرج العقوق من ولده۔ [نهج الفصاحة: ص225، حدیث 370]

[2]الْعِبَادَةُعَشَرَةُأَجْزَاءٍتِسْعَةُأَجْزَاءٍفِيطَلَبِالْحَلَالِ۔[مستدركالوسائلومستنبطالمسائل،ج‏13،ص: 12]

[3]ایران میں چائے وغیرہ کے ساتھ استعمال ہونے والی چینی کی ڈلیاں۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location