ہائی سکول میں اس کی تعلیم کے اوائل کا زمانہ تھا جب وہ فن پہلوانی سے آشنا ہوا۔ رات کو وہ حاج حسن کے اکھاڑے میں جایا کرتا تھا۔حاج حسن توکل جو حاج حسن نجار کے نام سے معروف تھے، ایک زاہد اور متقی عارف تھے۔ ان کا اکھاڑا ابوریحان ہائی سکول کے نزدیک ہی تھا۔ ابراہیم بھی اس کھیل اور معنویت والے ماحول کا ایک کھلاڑی تھا۔ حاج حسن کسرت کو قرآن مجید کی ایک یا چند آیات کی تلاوت سے شروع کرتے۔ اس کے بعد ایک حدیث اور اس کا ترجمہ بیان کرتے۔ اکثر راتوں میں وہ ابراہیم کو اکھاڑے میں بھیج دیتے جو عموماً قرآن مجید کا ایک سورہ یا دعائے توسل اور یا پھر اہل بیتؑ کی شان میں کچھ اشعار پڑھ کر اپنے مرشد کی مدد کرتا۔اس اکھاڑے کی سرگرمیوں میں سے ایک اہم سرگرمی یہ تھی کہ کسرت کے دوران جیسے ہی اذانِ مغرب ہوتی تو تمام جوان اپنی کسرت بند کرتے اور وہیں اکھاڑے کے دنگل ہی میں حاج حسن کی اقتداءمیں نماز باجماعت پڑھتے۔ حاج حسن انقلاب سے پہلے کے ان حالات میں کھیل اور ورزش کے ساتھ ساتھ جوانوں کو ایمان و اخلاق کا درس بھی دیتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جب کھیل کے بعد سب جوان اپنے اپنے کپڑے بدل ا ور ایک دوسرے کو خداحافظ کہہ رہے تھے تو اچانک ایک مرد کافی گھبرایا ہوا اکھاڑے میں داخل ہوا۔ اس کے پہلو میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور آواز لرز رہی تھی: ’’حاج حسن، میری مدد کیجیے۔ میرا بچہ مریض ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ یہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ آپ کی پھونک میں شفا ہے۔ خدا کا واسطہ اس کے لیے دعا کیجیے۔ آپ کو خدا کا واسطہ۔۔۔‘‘ اس کے بعد وہ رونا شروع ہو گیا۔ ابراہیم کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’سب اپنے کپڑے تبدیل کریں اور دنگل میں آ جائیں۔‘‘ وہ خود بھی دنگل کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ اس رات ابراہیم اتنے وقت تک جوانوں کے ساتھ دعائے توسل پڑھتا رہا جتنے وقت میں ان کی کسرت کا ایک راؤنڈ مکمل ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد دل کی گہرائی سے اس بچے کے لیے دعا کی۔ وہ مرد بھی اپنے بچے کے ساتھ اکھاڑے کی ایک طرف بیٹھا ہوا رو رہا تھا۔ دو ہفتے بعد ایک دن حاج حسن کسرت کے بعد کہنے لگے: ’’جوانو! جمعے کے دن تم سب کو دن کے کھانے کی دعوت ہے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کہاں؟‘‘ کہنے لگے: ’’وہ بے چارہ شخص جو اس دن اپنے بیمار بچے کو لایا تھا، اسی نے دعوت کی ہے۔‘‘ اس کے بعد حاج حسن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ اس کا بچہ شفایاب ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی کہنا ہے کہ بچے کو اب کوئی بیماری نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے دن کے کھانے پر سب کو بلایا ہے۔‘‘ میں نے پلٹ کر ابراہیم کو دیکھا۔ وہ جانے کے لیے اس انداز میں تیار ہو رہا تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ لیکن مجھے شک و شبہ نہیں رہا تھا کہ یہ اسی دعائے توسل کی قبولیت کا نتیجہ تھا جو اس دن ابراہیم نے پورے خضوع و خشوع سے اس بچے کے شفایابی کے لیے پڑھی تھی۔
*****
کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ ابراہیم ایسے جوانوں کےساتھ بھی دوستی کر لیتا تھا جو نہ تو ظاہراً مذہبی لگتے تھےا ور نہ ہی دینی مسائل میں انہیں کوئی دلچسپی ہوتی تھی۔ وہ انہیں کسرت کی طرف لے آتا اور پھر آہستہ آہستہ انہیں مسجد اور مذہبی انجمنوں کی راہ دکھا دیتا۔ ان نوجوانوں میں سے ایک، دوسروں کی نسبت کافی بُرا تھا۔ ہمیشہ شراب اور برے کاموں کے بارے میں باتیں کرتا رہتا۔ دین نام کی کسی چیز کو نہیں جانتا تھا۔ نماز، روزہ جیسی کسی بھی چیز کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔ حتی کہ یہاں تک اعتراف کرتا کہ وہ آج تک کسی بھی مذہبی محفل یا انجمن میں نہیں گیا۔ میں نے ابراہیم سے کہا: ’’ابرام، یہ کون لوگ ہیں جنہیں تم اپنے ساتھ لے آتے ہو؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا: ’’کل رات یہ جوان تمہارے پیچھے پیچھے انجمن میں داخل ہوا۔ اس کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ حاجی آغا اپنی تقریر کے دوران امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور یزید کے ظلم و ستم بیان کر رہے تھے۔ یہ جوان بڑے بھونڈے طریقے سے غصے میں ساری گفتگو سن رہا تھا۔ جب بتیاں بجھا دی گئیں تو آنسو بجھانے کی بجائے یزید کو لگاتار گالیاں دینے لگا۔‘‘ ابراہیم حیران ہو کر سن رہا تھا، اچانک ہنسنے لگا: ’’کوئی بات نہیں۔ یہ جوان ابھی تک کسی مذہبی انجمن میں نہیں گیا ہے اور اس نے عزاداری میں آنسو نہیں بہائے ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ اب یہ امام حسین علیہ السلام کی رفاقت میں آ گیا ہے تو سدھر جائے گا۔ ہم بھی اگر ان جوانوں کو مذہبی جوان بنا دیں تو سمجھو ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا۔‘‘ اس جوان کے ساتھ ابراہیم کی دوستی نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا کہ اس نے تمام برے کام چھوڑ دیےا ور اکھاڑے کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہونے لگا۔ کچھ ماہ بعد عید کے دنوں میں مَیں نے اس جوان کو دیکھا کہ کسرت کے بعد اس نے مٹھائی کا ایک ٹوکرا خریدا اور جوانوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد کہنے لگا: ’’دوستو! میں تم سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، خصوصاً آغا ابرام کا۔ خدا کی قسم، تم سب دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اگر میں آپ لوگوں سے آشنا نہ ہوتا تو نہیں معلوم اب کہاں ہوتا۔۔۔؟‘‘ ہم بھی حیران ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ جب ہم اکھاڑے سے باہر نکلے تو ابراہیم کے ان کارناموں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ وہ کتنی خوبصورتی سے جوانوں کو ایک ایک کر کے کھیل کی طرف راغب کرتا اور پھر انہیں آہستہ آہستہ مسجد و انجمن کی طرف کھینچ لاتا اور بقول اس کے اپنے، وہ انہیں امام حسین علیہ السلام کے دامن میں لا پھینکتا۔ مجھے پیغمبر اکرم ﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جو انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی تھی: ’’اے علی! اگر ایک انسان بھی تمہارے وسیلے سے ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے تو وہ مشرق و مغرب میں پائی جانے والی ان تمام چیزوں سے زیادہ افضل ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔‘‘[1]
*****
اس اکھاڑے میں انجام دی جانے والی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک خاص سرگرمی یہ تھی کہ جوان ایک گروہ کی شکل میں دوسرے اکھاڑوں میں جاتے تھے اور وہاں جا کر کھیلتے تھے۔ ماہِ رمضان المبارک کی ایک رات ہم کرج[2] کے ایک اکھاڑے میں گئے۔ مجھے وہ رات کبھی بھی نہیں بھولتی۔ ابراہیم شعر پڑھتا، دعا کرتا اور کھیلتا ہی چلا جا رہا تھا۔کافی دیر سے وہ دنگل کے کنارے ڈنڈ پیل رہا تھا۔ اکھاڑے میں اترنے والے جوان مسلسل تبدیل ہو رہے تھے مگر ابراہیم بغیر کسی وقفے کے ڈنڈ پیلے جا رہا تھا۔اصلاً کسی کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں تھی۔ چبوترے پر ایک معمر شخص بیٹھا سب جوانوں کا کھیل دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے پریشانی سے پوچھا: ’’یہ جوان کون ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کرالٹا سوال کر دیا: ’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’جب سے میں اکھاڑے میں داخل ہوا ہوں یہ مسلسل ڈنڈ پیل رہا ہے۔ میں تسبیح سے اس کے ڈنڈ گنتا رہا۔ اب تک سات دفعہ میں اپنی یہ تسبیح ختم کر چکا ہوں یعنی سات سو دفعہ یہ ڈنڈ۔ خدا کے لیے اسے اوپر لے آؤ، اس کی حالت خراب ہو جائے گی۔‘‘ جب کھیل ختم ہوا تو ابراہیم کو اصلاً تھکن کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ بالکل لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ چار گھنٹے سے ڈنڈ پیلتا رہا تھا۔ البتہ ابراہیم مضبوط ہونے کے لیے ایسے کام انجام دیتا رہتا تھا۔وہ ہمیشہ کہتا: ’’خدا اور بندوں کی خدمت کرنے کے لیے ہمارا جسم مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ وہ اکثر دعا کرتا: ’’خدایا! اپنی خدمت کے لیے میرے جسم کو قوت عطا فرما۔‘‘انہی دنوں ابراہیم اپنے لیے کافی بھاری گُرزوں[3] کی ایک جوڑی خرید لایا۔ اس جوڑی کا کافی چرچا ہوا اور لوگوں میں بہت مشہور ہوئی۔ لیکن اس کے بعد کبھی بھی اس نے جوانوں کے سامنے ان گرزوں کے ساتھ کوئی ورزش نہ کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسے کام انسان میں غرور پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ کہتا تھا: ’’لوگ اس بات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ کون کس سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر میں اوروں کے سامنے اس قسم کی سخت ورزش کا مظاہرہ کروں گا تو اپنے دوستوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بن جاؤں گا۔ ایسا لگے گا کہ میں اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز ظاہر کرنا چاہ رہا ہوں اور یہ بات صحیح نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد جب وہ کھیل کا نگران مقرر کر دیا گیا تھا تو جب بھی دیکھتا کہ کوئی کھلاڑی تھک گیا ہے یا صحیح طریقے سے کھیل نہیں پا رہا تو وہ فوراً کھیل کا انداز تبدیل کر دیتا۔ لیکن ایک بار ابراہیم نے اپنیطاقت کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس وقت جب کشتی کے عالمی چیمپئن اور حاج حسن کے ارادتمند سید حسین طحامی حاج حسن کے اکھاڑے میں تشریف لائے اور اکھاڑے کے جوانوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔