شهید ابراهیم هادی

شرط بندی

 

تقریباً 1975؁ کا سال تھا۔  ایک جمعے کی صبح ہم کھیل رہے تھے۔ تین اجنبی افراد آئے اور کہنے لگے: ’’ہم مغربی تہران سے آئے ہیں۔ ابراہیم کون ہے؟‘‘ اس کے بعد کہا: ’’ہم دو سو تومان پر شرط لگاتے ہیں۔‘‘ کچھ دیر کھیل شروع ہو گیا۔ ابراہیم اکیلا اور وہ تین، لیکن اس کے باوجود وہ ابراہیم سے ہار گئے۔ اسی روز ہم شہر کے جنوبی حصے میں واقع ایک محلے میں گئے۔ وہاں ہم نے 700 تومان کی شرط باندھی۔ مقابلہ اچھا رہا اور ہم جلدی جیت گئے۔ پیسے دیتے وقت ابراہیم سمجھ گیا کہ وہ لوگ پیسے جمع کرنے کےلیے قرض لے رہے ہیں تو فوراً اس نے کہا: ’’دوستو! ایک اکیلا کھلاڑی مجھ سے مقابلہ کرے۔ اگر وہ جیت گیا تو ہم پیسے نہیں لیں گے۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور کھیل شروع ہو گیا۔ ابراہیم بہت برا کھیلا۔ اتنا برا کہ اس کا حریف مقابلہ لے اڑا۔‘‘ وہ سارے خوشی خوشی وہاں سے رخصت ہو گئے۔ میں سخت غصے میں تھا اور ابراہیم سے کہا: ’’آغا ابرام، اتنا برا کیوں کھیلے؟‘‘ اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا: ’’میں چاہتا تھا کہ ان بے چاروں کی سبکی نہ ہو۔ ان سب کے پاس ملا کر بھی سو تومان نہیں تھے۔‘‘ اگلے ہفتے دوبارہ وہی تہرانی جوان اپنے دو اور دوستوں کو لے آئے۔ 500 تومان شرط لگا کر وہ پانچ ایک طرف ہو گئے اور ابراہیم اکیلا ایک طرف۔ ابراہیم نے اپنی شلوار کے پائنچے اوپر کیے اور ننگے پاؤں کھیلنے لگا۔وہ گیند کو ایسے شاٹ لگاتا کہ کوئی بھی اس کی گیند کو نہ اٹھا سکتا تھا۔ اس دن بھی ابراہیم بہت زیادہ پوائنٹس کی برتری سے جیت گیا۔ رات کو ہم ابراہیم کے ساتھ مسجد میں گئے۔ نماز کے بعد امام جماعت احکام بیان کرنے لگے۔ جب وہ شرط بندی اور حرام پیسوں کے احکام تک پہنچے تو کہا کہ پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بھی ناجائز طریقے سے مال کماتا ہے وہ اسے باطل راستے اور سخت حالات میں اپنے ہاتھ سے دھو بیٹھے گا۔‘‘ اور آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو حرام کا ایک لقمہ کھائے تو چالیس شب و روز تک اس کی نماز اور دعا قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘ ابراہیم حیرانی سے ساری گفتگو سن رہا تھا۔ اس کے بعد ہم اکٹھے امام جماعت صاحب کے پاس چلے گئے۔ ابراہیم نے ان سےپوچھا: ’’میں نے آج والی بال کے ایک مقابلے میں 500 تومان کی شرط جیتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے تمام ماجرا انہیں بتاتے ہوئے کہا: ’’لیکن میں نے یہ پیسے ایک مستحق خاندان کو دے دیے ہیں۔‘‘ امام جماعت صاحب نے فرمایا: ’’آئندہ احتیاط کرنا، کھیلو ضرور مگر شرط نہ باندھو۔‘‘ ایک ہفتہ گزرا تو پھر وہی لوگ آ گئے۔ اس دفعہ وہ اپنے ساتھ زیادہ مضبوط اور ماہر کھلاڑی دوستوں کو لے آئے تھے۔ آتے ہی کہنے لگے: ’’اس دفعہ ایک ہزار تومان کی شرط لگاتے ہیں۔‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’میں کھیلوں گا تو سہی، لیکن شرط نہیں باندھوں گا۔‘‘ انہوں نے تمسخر اڑانا شروع کر دیا اور ابراہیم کو جوش دلانےلگے: ’’ڈر گیا۔ اسے معلوم ہے کہ اس دفعہ ہار جائے گا۔‘‘ دوسرا کہنے لگا: ’’اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ ابراہیم نے انہیں جواب دیا: ’’شرط بندی حرام ہے۔ مجھے اگر معلوم ہوتا تو میں پچھلے ہفتے بھی آپ لوگوں کے ساتھ شرط نہ باندھتا۔ تم سے جیتے گئے پیسے بھی میں نے ایک ضرورتمند خاندان کو دے دیے ہیں۔ اگر تم پسند کرو تو بغیر شرط کے میں تمہارے ساتھ کھیلنے کو تیار ہوں۔‘‘لیکن اتنے تمسخر اور ابراہیم کے سمجھانے کے باوجود بھی مقابلہ نہ ہو سکا۔

*****

اس کا دوست کہتا تھا: ’’اس کے بعد ابراہیم ہمیں بہت نصیحت کرتا تھا کہ ہم شرط نہ باندھیں، مگر اس کے باوجود بھی ہم نے ایک محلہ نازی آباد کے جوانوں کے ساتھ ایک مقابلہ کیا اور بھاری شرط باندھ لی۔ کھیل ختم ہونے کو تھا کہ ابراہیم آ گیا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ہم شرط باندھ کر کھیل رہے ہیں تو وہ ہم سے کافی ناراض ہو گیا۔‘‘ دوسری طرف ہمارے پاس دینے کے لیے اتنی زیادہ رقم بھی نہیں تھی۔ جب کھیل ختم ہوا تو ابراہیم نے آگے بڑھ کر گیند اٹھا لی اور کہا: ’’کوئی ہے جو آگے آئے اور اکیلا میرے ساتھ کھیلے؟‘‘ نازی آباد کے جوانوں میں سے ح۔ق  نامی ایک جوان تھا جو والی بال کی قومی ٹیم کا رُکن اور واپڈا والی بال ٹیم کا کپتان تھا۔ وہ بہت مغرورانہ انداز میں آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا؛ ’’کیا شرط لگاتے ہو؟‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’اگر تم شکست کھا گئے تو ان لوگوں سے پیسے نہیں لو گے۔‘‘اس نے قبول کر لیا۔ ابراہیم نے اتنے اچھے انداز میں کھیل کھیلا کہ ہم سب حیران رہ گئے۔ اس نے کافی زیادہ پوائنٹس سے اپنے حریف کو شکست دے دی۔ لیکن اس کے بعد اس نے شرط بندی کی وجہ سے ہمیں خوب ڈانٹ پلائی۔

*****

والی بال کے علاوہ ابراہیم دوسرے کھیلوں میں بھی کافی مہارت رکھتا تھا۔ وہ کوہ پیمائی میں بھی مکمل کھلاڑی تھا۔ انقلاب کی کامیابی سے تین سال پہلے سے لے کر انقلاب کے ایام تک ہر ہفتے جمعے کی صبح کو اکھاڑے کے چند دوستوں کے ساتھ تہران کے علاقے تجریش چلا جاتا تھا۔ فجر کی نماز امام زادہ صالح کے حرم میں پڑھتے۔ اس کے بعد دوڑتے ہوئے پہاڑ پر چڑھنا شروع ہو  کر دیتے۔ وہاں جا کر ناشتہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ میں یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک دفعہ ابراہیم کشتی کی مشق کر رہا تھا اور اپنی ٹانگوں کو مضبوط کرنا چاہتا تھا تو اس نے دربند چوک سے ایک جوان کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور اوپر آبشار دوقلو[1] تک لے گیا۔ دربند اور کولکچال کے علاقے میں ہونے والی یہ کوہ پیمائی انقلاب کی کامیابی تک ہر ہفتے ہوتی تھی۔ ابراہیم فٹ بال بھی بہت اچھا کھیلتا تھا۔ ٹیبل ٹینس میں بھی استاد تھا اور دونوں ہاتھوں میں ریکٹ پکڑ کر کھیلتا تھا۔ اس کھیل میں بھی کوئی اس سے مقابلہ نہیں کر پاتا تھا۔

 

[1]دوقلو جڑواں کو کہتے ہیں۔ تہران میں موجود یہ جڑواں آبشاریں ’’آبشار دوقلو‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location