ابراہیم کو کشتی کے کھیل میں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ اپنے دوستوں اور بذات خود حاج حسن کی تجویز پر وہ باقاعدہ طور پر کشتی کے مقابلوں میں حصہ لینے لگا۔ اس نے خراسان چوک کے نزدیک ابومسلم کلب میں داخلہ لے لیا اور 53 کلوگرام کے مقابلوں سے اپنی کشتیوں کا آغاز کیا۔ آغا گودرزی اور آغا محمدی ان دنوں ابراہیم کے بہت اچھے کوچ ہوا کرتے تھے۔ آغا محمدی، ابراہیم کو اس کے اخلاق اور حسن سلوک کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے۔ آغا گودرزی بہت ہی اچھے انداز میں ابراہیم کو فن کشتی کے اسرار و رموز سکھاتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے: ’’یہ لڑکا بہت ہی نرم خُو ہے، مگر جب کشتی کے لیے اکھاڑے میں اترتا ہے تو اپنے بلند قد اور مضبوط لمبے بازؤوں کے ساتھ ایک چیتے کی طرح حملہ آور ہوتا ہے۔ جب تک وہ کوئی پوائنٹ نہ لے لے حریف کو چھوڑتا نہیں ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابراہیم کا نام ’’سویا ہوا شیر‘‘رکھ چھوڑا تھا۔ وہ بارہا کہتے: ’’تم دیکھ لینا، یہ لڑکا ایک دن تمہیں کشتی کے عالمی مقابلوں میں نظر آئے گا۔‘‘ 80 کی دہائی میں ابراہیم نے تہران میں ہونے والے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان مقابلوں میں اس نے تمام حریفوں کو پوری قوت سے پچھاڑ کر رکھ دیا۔ ابھی اس کی عمر فقط 15 سال ہی تھی جب وہ ایران کے قومی مقابلوں کے لیے منتخب ہو گیا۔ اکتوبر کے آخر میں مقابلوں کا آغاز ہوتا تھا لیکن ابراہیم نے ان مقابلوں میں شرکت نہ کی۔ اس کے کوچ اس سے کافی ناراض ہوئے۔ یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ مقابلوں میں ولی عہد بھی موجود تھا اور انعامات بھی اسی نے تقسیم کرنا تھے۔ اسی وجہ سے ابراہیم نے ان مقابلوں میں حصہ نہ لیا۔ اگلے سال ابراہیم نے مختلف کلبوں کے درمیان ہونے والے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں حصہ لیا اور چیمپئن شپ جیت لی۔ اسی سال اس نے تہران کے کلبوں کے درمیان ہونے والے 62کلوگرام کے مقابلوں میں شرکت کی۔اگلے سالجب اس نے کلبوں کے درمیان ہونے والےمقابلوں میں دیکھا کہ اس کا ایک قریبی دوست 68 کلوگرام کے مقابلوں میں شریک ہے تو ابراہیم نے اس سے اوپر والے درجے یعنی 74 کلوگرام میں حصہ لیا۔ اس سال ابراہیم کی ترقی حیران کن تھی۔ 18 سال کی عمر میں اس نے کلبوں کے درمیان ہونے والے 74 کلو گرام کے مقابلوں میں شرکت کر کے چیمپئن شپ اپنے نام کر لی تھی۔ کشتی میں قُفلی پیچ اور اپنے مضبوط اور لمبے بازؤوں کا بروقت استعمال ابراہیم کا خاص گُر تھا جو اس چیز کا باعث بنا کہ کشتی کے تمام معیارات تبدیل ہو کر رہ گئے۔
*****
ایک دن ابراہیم اپنی کشتی کا سامان لیے علی الصبح ہی گھر سے نکل گیا۔ میں اور میرا بھائی بھی ساتھ ہو لیے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہم اس کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ ہفتِ تیر ہال میں داخل ہو گیا۔ہم بھی ہال میں داخل ہو گئے اور جا کر تماشائیوں میں بیٹھ گئے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کشتی کے مقابلے شروع ہو گئے۔ اس دن ابراہیم نے کئی مقابلوں میں حصہ لیا اور سبھی میں جیت گیا۔ اچانک اس کی نظر ہم پر پڑ گئی۔ ہم تماشائیوں میں بیٹھے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ وہ غصے سے ہماری طرف آیا اور کہنے لگا: ’’تم لوگ یہاں کیوں آئے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’ایسے ہی، تمہارے پیچھے آئے تھے، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم کہاں جاتے ہو۔‘‘ اس نے کہا: ’’کیا مطلب؟! یہ جگہ تمہارے لائق نہیں ہے۔ جلدی اٹھو، گھر چلیں۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’تمہیں یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے، اٹھو، اٹھو گھر چلیں۔‘‘ اس کی باتوں کے دوران ہی لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہوا: ’’سیمی فائنل وزن 74 کلو گرام، آغا ہادی اور آغا تہرانی۔‘‘ ابراہیم نے ایک دفعہ کشتی کے فرش (Wrestling Mat)کی طرف دیکھا اور ایک دفعہ ہمیں اور پھر کچھ دیر خاموش رہ کر فرش کی طرف چلا گیا۔ہم بھی پورے زور و شور سے چلّا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ ابراہیم کا کوچ مسلسل چلّا چلّا کر اسے بتا رہا تھا کہ کیا کرے، لیکن ابراہیم فقط دفاع کر رہا تھا۔ کنکھیوں سے ہماری طرف بھی دیکھ رہا تھا۔ کوچ کافی غصے میں ہو کر چیخ رہا تھا: ’’ابرام، کشتی کیوں نہیں لڑ رہے؟ مارو اسے۔‘‘ ابراہیم نے ایک خوبصورت پینترا بدل کر ایسا داؤ لگایا کہ حریف کو زمین سے اٹھایا اور ایک چکر کاٹ کر اسے زور سے فرش پر پٹخ دیا۔ ابھی کشتی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ فرش سے نیچے اتر آیا۔ اس دن اسے ہم پر بہت غصہ آیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ ہمارے پیچھا کرنے کی وجہ سے غصے میں ہے۔ واپسی پر باتوں کے دوران اس نے کہا: ’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بدن کو مضبوط کرنے کے لیے کھیلے نہ کہ چیمپئن بننے کےلیے۔ میں بھی اگر ان مقابلوں میں شرکت کرتا ہوں تو وہ فقط اور فقط اس لیے کہ مختلف قسم کے فنون کو سیکھ سکوں۔ اس کے علاوہ میرا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے کہا: ’’لیکن اس میں برائی ہی کیا ہے کہ انسان چیمپئن بن جائے اور مشہور ہو جائے کہ سارے لوگ اس جانتے ہوں۔‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا: ’’مشہور ہونے کا ظرف ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ مشہور ہونے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان، حقیقی انسان بن جائے۔‘‘ اس روز ابراہیم فائنل میں پہنچ گیا۔ لیکن آخری مقابلے سے پہلے ہی وہ ہمارے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ اس طرح اس نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ رتبہ و مقام اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ابراہیم ہمیشہ امام خمینیؒ کا یہ جملہ دہراتا تھا: ’’کھیل زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.