کلبوں کے درمیان ہونے والی 74 کلوگرام چیمپئن شپ کے مقابلے تھے۔ ابراہیم نے اپنے تمام حریفوں کو یکے بعد دیگرے شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس سال اس نے مقابلوں کے لیے کافی مشق کی تھی۔ اکثر حریفوں کو تو اس نے چند ہی راؤنڈز میں پچھاڑ ڈالا تھا۔ اگر وہ یہ مقابلہ جیت جاتا تو حتماً فائنل میں جا کر چیمپئن شپ اپنے نام کر سکتا تھا، مگر سیمی فائنل میں اس نے بہت بری کشتی کھیلی۔ بالآخر ایک پوائنٹ سے وہ کشتی ہار گیا۔ اس سال ابراہیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، لیکن کئی سال بعد وہی جوان جو سیمی فائنل میں ابراہیم کا حریف تھا، اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ابراہیم سے ملنے کے لیے آیا ہوا تھا۔ وہ ابراہیم کے ساتھ گزرے ہوئے اپنے لمحات کا ذکر کر رہا تھا۔ ہم سب غور سے سن رہے تھے۔ باتیں کرتے کرتے وہ ابراہیم کے ساتھ اپنے تعارف کے تذکرے تک پہنچ گیا: ’’ہماری آشنائی کلبوں کے درمیان 74 کلوگرام چیمپئن شپ کے مقابلوں میں سیمی فائنل کے دوران ہوئی تھی۔ طے پایا تھا کہ میرا مقابلہ ابراہیم سے ہونا ہے۔‘‘ وہ جب بھی اس واقعے کو تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تو ابراہیم آڑے آ جاتا اور بحث کا رخ پھیر دیتا۔ آخر کار اس نے اسے وہ ماجرا بیان نہ کرنے دیا۔ اگلے ر وز میں اس جوان سے ملا اور کہا: ’’کیا ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی کشتی کا سارا واقعہ مجھے سنائیں۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا: ’’اس سال میں سیمی فائنل میں ابراہیم کا حریف ٹھہرا تھا لیکن میری ایک ٹانگ میں سخت تکلیف تھی۔ میں اس وقت تک ابراہیم کو نہیں پہچانتا تھا۔ میں نے اسے کہا: ’’دوست، میری یہ ٹانگ زخمی ہے، ذرا دھیان رکھنا۔‘‘ ابراہیم نے بھی جواباً کہا: ’’ٹھیک ہے بھائی، خاطر جمع رکھو۔‘‘ ’’میں نے اس کی کشتیاں دیکھ رکھی تھیں۔ وہ کشتی میں استاد تھا۔ اگرچہ کشتی کے دوران ابراہیم کی اصل تکنیک ہی یہی تھی کہ وہ ٹانگ پر قفلی لگا کر حریف کو پچھاڑتا تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے اس روز میری ٹانگ کو چھوا تک نہیں۔ لیکن میں نے نامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے زمین پر دے مارا اور خوشی خوشی فائنل میں پہنچ گیا۔ ابراہیم انتہائی آسانی سے مجھے شکست دے کر چیمپئن بن سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’لیکن میرا خیال ہے کہ ابراہیم نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تا کہ میں جیت جاؤں۔ وہ اپنی شکست سے پریشان بھی نہیں تھا کیونکہ اس کے نزدیک چیمپئن شپ کی تعریف ہی کچھ اور تھی۔ لیکن میں کافی خوش تھا۔ میری خوشی کی زیادہ وجہ یہ تھی کہ فائنل میں میرا حریف ہمارے اپنے ہی علاقے کا ایک جوان تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ سارے کھلاڑی ہی بھائی ابرام جیسی معرفت اور اخلاق کے مالک ہیں۔ لیکن فائنل میں بھی حالانکہ میں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے اپنے حریف سے یہی کہا تھا کہ میری ٹانگ زخمی ہے مگر اس نے مقابلے کے پہلے جھٹکے ہی میں میری اسی زخمی ٹانگ کو پکڑ لیا۔ میں درد سے بلبلا اٹھا۔ اس کے بعد اس نے مجھے زمین پر دے پٹخا اور بالآخر میں فائنل ہار گیا۔ اس سال میری دوسری پوزیشن آئی جبکہ ابراہیم کی تیسری، مگر مجھے پورا یقین تھا کہ چیمپئن شپ کا اصل حقدار ابراہیم تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، میری اس کے ساتھ دوستی ہے۔ میں نے اس میں کچھ عجیب چیزوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایسا دوست مجھے عطا کیا۔‘‘ اس کی بات ختم ہوئی تو وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ میں بھی واپس آ گیا اور سارے راستے اسی کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے یاد آ گیا کہ گیلان غرب کی چھاؤنی میں ایک دیوار پر ہر مجاہد کے بارے میں ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔ ابراہیم کے بارے میں وہاں تحریر تھا: ’’ابراہیم ہادی، پوریائی ولی[1] جیسی خصوصیات کا حامل مجاہد۔‘‘
[1]پوریائی ولی، ایران کا نویں صدی ہجری کا مشہور پہلوان جو نہ صرف مایہ ناز اور بہادر پہلوان تھا بلکہ اپنے حسن اخلاق اور عرفانی کمالات کی وجہ سے بھی عوام الناس میں کافی شہرت کا حامل تھا۔ ایرانی پہلوان، اسے فن پہلوانی کے استادِ اعظم کے علاوہ اپنا روحانی مرشد بھی تسلیم کرتے ہیں۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.