1976 کا سال تھا۔ کلبوں کے درمیان چیمپئن شپ کے مقابلے ہو رہے تھے۔ فائنل میں جیتنے والے کو نقد انعام کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کا حصہ بھی بنا دیا جاتا تھا۔ ابراہیم کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ جو کوئی اس کا ایک مقابلہ بھی دیکھ لیتا تو وہ اس بات کی تائید کرتا۔ کوچ کہہ رہے تھے کہ اس سال 74 کلوگرام کے مقابلوں میں ابراہیم کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔ مقابلوں کا آغاز ہو گیا۔ ابراہیم ایک ایک کر کے سب کو پچھاڑتا جا رہا تھا۔ چار کشتیوں کے بعد وہ سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ کشتی میں وہ حریف کو یا تو چاروں شانے چِت کر دیتا یا کافی زیادہ پوائنٹس کی برتری سے مقابلہ جیت لیتا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہہ رکھا تھا: ’’خاطر جمع رکھو۔ اس دفعہ ہمارے کلب سے ایک پہلوان قومی ٹیم کا حصہ بننے جا رہا ہے۔‘‘ سیمی فائنل میں اگرچہ اس کا حریف ایک جانا مانا اور منجھا ہوا پہلوان تھا لیکن ابراہیم نے اسے شکست دے دی اور فاتحانہ انداز میں فائنل میں پہنچ گیا۔ فائنل میں اس کا مقابلہ آغا محمود۔ ک سے تھا۔ اس نے اسی سال بین الاقوامی فوجی چیمپئن شپ کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ فائنل مقابلہ شروع ہونے سے پہلے میں ابراہیم کے پاس اس کے ڈریسنگ روم میں گیا اور اس سے کہا: ’’میں نے تمہارے حریف کے مقابلے دیکھے ہیں۔ وہ کافی اناڑی ہے۔ فقط ابرام جان، خدا کے لیے خیال رکھنا۔ صحیح طریقے سے کشتی لڑنا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار قومی ٹیم کے لیے تمہارا ہی انتخاب ہو گا۔‘‘ کوچ اپنی آخری ہدایات ابراہیم کے گوش گزار کر رہا تھا جبکہ ابراہیم اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہا تھا۔ اس کے بعد وہ اکٹھے کشتی کے فرش (Wrestling Mat) کی طرف چلے گئے۔ میں جلدی سے تماشائیوں میں جا کر بیٹھ گیا۔ ابراہیم کشتی کے فرش پر پہنچا۔ اس کا حریف بھی پہنچ گیا۔ ریفری ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر اپنے حریف کو مسکراتے ہوئے سلام اور مصافحہ کیا۔ اس کے حریف نے کچھ کہا جسے میں نہ سمجھ سکا، لیکن ابراہیم نے تائید کے انداز میں سر ہلایا۔ پھر حریف نے ہال میں بیٹھے تماشائیوں میں ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے اسے کچھ دکھایا۔ جب میں نے بھی وہاں دیکھا تو وہاں ایک معمر خاتون دکھائی دی جو تسبیح ہاتھ میں لیے ایک اونچی جگہ پر بیٹھی تھی۔ میں سمجھ نہ سکا کہ اس نے کیا کہا اور کیا ہوا، لیکن ابراہیم نے بہت ہی برے انداز میں کشتی کا آغاز کیا۔ فقط دفاع کر رہا تھا۔ ابراہیم کا کوچ بے چارہ اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اس قدر چیخ رہا تھا کہ اس کا گلا بیٹھ گیا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ابراہیم اپنے کوچ حتی کہ میری چیخ و پکار بھی نہیں سن رہا۔ وہ فقط وقت ضائع کر رہا تھا۔ ابراہیم کا حریف اگرچہ شروع میں کافی خوفزدہ تھا مگر اب آہستہ آہستہ اس میں جرأت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ مسلسل وار کر رہا تھا جبکہ ابراہیم پوری متانت سے فقط دفاع میں مشغول تھا۔ ریفری نے ابراہیم کو ایک دفعہ وارننگ دی، پھر دوسری اور پھر آخر میں تیسری وارننگ دے دی۔ تیسری وارننگ کے ساتھ ہی ابراہیم مقابلہ ہار گیا اور اس کا حریف 74 کلوگرام مقابلوں کا چیمپئن بن گیا۔ جب ریفری حریف کا ہاتھ بلند کر رہا تھا تو ابراہیم خوش ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ چیمپئن وہ بنا ہے۔ اس کے بعد دونوں پہلوان ایک دوسرے کے گلے ملے۔ ابراہیم کے حریف نے خوشی سے روتے روتے جھک کر اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ اب دونوں پہلوان ہال سے باہر نکل رہے تھے۔ میں چبوترے سے نیچے کودا اور غصے سے بھرا ہوا ابراہیم کی طرف آ گیا۔ میں نے چلّا کر کہا: ’’بے وقوف کہیں کے، یہ کیسی کشتی تھی؟‘‘ اس کے بعد میں نے ابراہیم کے بازو پر زور سے مکّا مارتے ہوئے کہا: ’’اگر تم کشتی نہیں لڑنا چاہتے تو بتا دو۔ ہمارا وقت تو ضائع نہ کرو۔‘‘ ابراہیم نے پرسکون انداز میں ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے کہا:’’اتنی لالچ نہ کیا کرو۔‘‘ اس کے بعد وہ جلدی سے ڈریسنگ روم میں گیا، اپنے کپڑے پہنے اور سر نیچے کر کے چلا گیا۔ میں غصے سے دروازے اور دیوار پر گھونسے برسانے لگا۔ اس کے بعد ایک جگہ بیٹھ گیا۔جب تھوڑی دیر گزر گئی اور میرا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں اٹھ کر جانے لگا۔ کلب کے دروازے پر ابھی ہجوم تھا۔ وہی ابراہیم کا حریف اپنی ماں اور سارے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ لوگ بہت خوش تھے۔ اچانک اس نے مجھے بلایا۔ میں نے پلٹ کر غصے سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘ وہ میرے پاس آ گیا: ’’آپ آغا ابرام کے دوست ہیں نا؟‘‘ میں نے پھر غصے سے کہا: ’’جی، فرمائیے!‘‘ اس نے بے ساختہ کہا: ’’تمہارا دوست بہت ہی اچھا ہے۔ میں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے آغا ابرام سے کہا کہ میں یقیناً تم سے جیت تو نہیں سکتا مگر میرا خیال رکھنا۔ میری ماں اور بھائی ہال کے اُوپری حصے میں بیٹھے ہیں۔ ہمیں شرمندہ نہ ہونے دینا۔‘‘ اس کے بعد اس شخص نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’تمہارے دوست نے تو دریا دلی کی حد ہی کر دی۔ تم نہیں جانتےکہ میری ماں کتنی خوش ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص رونے لگا: ’’میں نے ابھی ابھی شادی کی ہے۔ مقابلے سے ملنے والے نقد انعام کی بہت سخت ضرورت تھی۔ تم نہیں جانتے، میں کتنا خوش ہوں آج۔‘‘ میں دم سادھے کھڑا تھا۔ میرے پاس کچھ کہنے کو رہا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر خاموش رہا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ سارا ماجرا تو مجھے اب سمجھ میں آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’دوست، اگر میں ابراہیم بھائی کی جگہ پر ہوتا تو اتنی زیادہ مشقتوں اور مشقوں کے بعد ایسا کام تو ہرگز نہ کرتا۔ ایسے کام ابرام ہی جیسے عظیم لوگوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔‘‘میں نے اسے خداحافظ کہا۔ کنکھیوں سے اس خوش باش اور ہنستی مسکراتی بڑھیا کو دیکھا اور چل پڑا۔ راستے میں ابراہیم کے کام کے بارے میں چتا رہا۔اس طرح آسانی سے ایسا کام انجام دے دینے کے بارے میں ایک عام عقل سوچ بھی نہیں سکتی۔‘‘میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ پوریائی ولی کو جب معلوم ہوا کہ اس کے حریف کو مقابلہ جیتنے کی بہت زیادہ احتیاج ہے اور حاکم شہر انہیں تنگ کر رہا ہے تو اس نے اپنے حریف کو مقابلہ جتوا دیا۔ لیکن ابراہیم۔۔۔۔۔مجھے وہ محنتیں اور سخت مشقیں یاد آنے لگیں جن سے اس مدت میں ابراہیم گزرا تھا اور پھر اس بڑھیا کی ہنسی اور اس جوان کی خوشی جیسے ہی یاد آئی تو میں یکدم رونے لگا ۔ عجیب آدمی ہے یہ ابراہیم بھی!!
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.