شهید ابراهیم هادی

نفس کشی 

 

تہران میں شدید بارش ہوئی تھی اور 17 شہریور روڈ پانی میں ڈوب گیا تھا۔ کچھ بوڑھے مرد روڈ کی ایک طرف کھڑے تھے اور دوسری طرف جانے کے جتن کر رہے تھے۔ اسی وقت ابراہیم بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے اپنی شلوار کے پائنچوں کو اوپر چڑھایا۔ ان بوڑھوں کو کندھوں پر اٹھایا اور انہیں روڈ کی دوسری طرف پہنچا دیا۔ابراہیم اکثر ایسے کام کرتا رہتا تھا۔ ایسے کاموں سے نفس کشی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا تھا۔ بالخصوص اس زمانے میں تو وہ اور بھی زیادہ ایسے کام انجام دیتا تھا جب وہ جوانوں میں کافی مشہور ہو چکا تھا۔

*****

گرمیوں کی ایک سہ پہر تھی۔ ہم ابراہیم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ایک گلی کے سامنے پہنچے جہاں کچھ لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی ہم وہاں سے گزرے تو ایک لڑکے نے زور سے فٹ بال کو کک لگائی اور گیند سیدھی ابراہیم کے منہ پر آ کر لگی۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ ابراہیم فوراً زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ شدید سرخ ہو چکا تھا۔مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے لڑکوں کی طرف دیکھا تو وہ ہمارے ہاتھوں پٹائی سے بچنے کے لیے بھاگنے ہی والے تھے کہ ابراہیم نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی کِٹ میں ہاتھ ڈالا اور اخروٹوں کا ایک پیکٹ باہر نکال کر  لڑکوں کو آواز دی:  ’’کہاں چلے؟ ادھر آؤ، اخروٹ لے لو۔‘‘اس کے بعد اس نے پیکٹ کو گول نیٹ کے پاس رکھااور پھر ہم چل دیے۔ راستے میں میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا: ’’ابرام بھائی، یہ تم نے کیا؟‘‘ کہنے لگا: ’’وہ بے چارے ڈر گئے تھے۔ جان بوجھ کر تو انہوں نے نہیں مارا تھا۔‘‘ اس کے بعد اس نے بات کا رخ بدلا اور جہاں سے ہمارا سلسلہ گفتگو منقطع ہوا تھا وہیں سے آگے ہم باتیں کرنے لگے۔ لیکن میں جانتا تھا کہ عظیم لوگ اپنی زندگی میں ایسے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔

*****

ہم کشتی کلب میں تھے اور مشق کےلیے آمادہ ہو رہے تھے کہ ابراہیم داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد ایک اور دوست بھی آ گیا۔ وہ آتے ہی کہنے لگا: ’’ابرام جان، تمہاری شکل و صورت اور قدو قامت بہت دلکش ہے۔ آج جب تم آ رہے تھے تو دو لڑکیاں بھی تمہارے پیچھے پیچھے  تھیں اور تمہارے ہی بارے میں مسلسل باتیں کیے جا رہی تھیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ’’تم نے خوبصورت پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور سپورٹس کٹ بھی تمہارے ہاتھ میں تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تم کھلاڑی ہو۔‘‘ میں نے ابراہیم کی طرف دیکھا۔ وہ کسی سوچ میں پڑ گیا تھا اور کافی بے چین لگ رہا تھا۔  ایسا لگتا تھا کہ اسے ایسی باتوں کی توقع ہی نہیں تھی۔ اگلی بار جب میں مشق کے لیے گیا تو ابراہیم کو دیکھتے ہی میری ہنسی نکل گئی۔ اس نے لمبی قمیص اور کھلی شلوار پہن رکھی تھی اور کھیل کے کپڑے کٹ کی بجائے پلاسٹک کے ایک تھیلے میں ڈال رکھے تھے۔ اس دن کے بعد وہ ہمیشہ اسی ہیئت میں کلب میں آیا کرتا تھا۔ سب دوست اسے کہتے: ’’یار، تم بھی عجیب انسان ہو! ہم کلب میں اس لیے آتے ہیں تاکہ ہماری بدن کسرتی ہو جائے اور اس کے بعد ہم تنگ قمیصیں پہن  سکیں مگر تم اتنے بھرے ہوئے اور خوبصورت جسم کے ساتھ اس قسم کا عجیب سا لباس پہن کر آ جاتے ہو؟!‘‘ ابراہیم ان کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا رہتا کہ اگر کھیل خدا کے لیے ہو تو عبادت ہے لیکن اگر اس کے علاوہ اور کوئی نیت ہو تو تم خسارے میں رہو گے۔

*****

ہم میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ اچانک ابراہیم پر نظر پڑی جو ایک چبوترے کے پاس کھڑا تھا۔ میں جلدی سے اس کے پاس گیا۔ اسے سلام کیا اور خوشی سے کہا: ’’عجب، تم یہاں کہاں؟‘‘ اس کے ہاتھ میں ایک رسالہ تھا۔ اس نے اٹھا کر کہا: ’’تمہاری تصویر چھپی ہے۔‘‘ میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔  میں نے ہاتھ بڑھا کر رسالہ اس کے ہاتھ سے لینا چاہا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا: ’’ایک شرط پر دوں گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’جو کہو، قبول ہے۔‘‘ اس نے دوبارہ پوچھا: ’’جو کچھ کہوں گا، تم مانو گے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں یار، مانوں گا۔‘‘ اس نے مجلہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ درمیان والے صفحے پر میرے پوری بڑی تصویر چھپی ہوئی تھی، جس کے ساتھ لکھا تھا: ’’جوانوں کے فٹ بال کا جدیدچہرہ‘‘ اور میری تعریفوں کی ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ میں وہیں چبوترے کے پاس بیٹھ گیا اور صفحے کے متن کو دوبارہ پڑھنے لگا اور اچھی طرح اسے کھنگال ڈالا۔ اس کے بعد سر اٹھا کر ابراہیم سےکہا: ’’تمہارا بہت بہت شکریہ، ابرام جان۔ تم نے مجھے بہت خوش کیا۔ اب بتاؤ، تمہاری شرط کیا تھی؟‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا: ’’جو شرط بھی ہو، تسلیم کرو گے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں، میرے بھائی۔‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا: ’’تم آئندہ سے فٹ بال مت کھیلو!‘‘ میں بھونچکا رہ گیا اور  حیرت سے دیدے پھاڑے اس کی طرف دیکھنے لگا: ’’کیا مطلب، میں آئندہ فٹ بال نہ کھیلوں؟! ابھی ابھی تو میں مشہور ہو رہا ہوں!‘‘ اس نے کہا: ’’میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اصلاً فٹ بال کھیلنا ہی چھوڑ دو۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ پیشہ ورانہ فٹ بال میں مت جانا۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر مجلہ میرے ہاتھ سے لے لیا۔ میری تصویر پر ہاتھ رکھ کر مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگا: ’’اس رنگین تصویر کو دیکھو۔ یہاں تمہاری تصویر سپورٹس شرٹ میں ہے۔ یہ مجلّہ فقط میرے اور تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ  سب لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ بہت سی لڑکیاں بھی ممکن ہے اسے دیکھ چکی ہوں، یا دیکھیں گی۔‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ’’تم چونکہ ایک متدین جوان ہو اور مسجد سے تعلق رکھتے ہو اس وجہ سے میں تمہیں یہ بات کہہ رہا ہوں ورنہ مجھے تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تم پہلے اپنے اعتقادات کو مضبوط کرو اس کے بعد پیشہ ورانہ فٹ بال میں جاؤ تا کہ تمہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’مجھے کچھ کام ہے۔‘‘ اور خداحافظ کہہ کر چلا گیا۔ میں اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا تھا۔ بیٹھ کر اس کی ساری باتوں پر غور کرنے لگا۔ وہ انسان جو ہمیشہ مذاق کرتا رہتا تھا اور عوامی باتیں کیا کرتا تھا، اس سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی۔ ہرچند کہ بعد میں مجھے اس کی تمام باتیں سمجھ آ گئی تھیں، جب میں دیکھتا تھا کہ مسجد میں آنے جانے والے بعض جوان اور نمازی جو پختہ عقائد کے مالک نہ تھے، جب پیشہ ورانہ فٹ بال میں داخل ہوئے تو ماحول کا رنگ اپناتے ہوئے نماز تک سے دور ہو گئے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location