شهید ابراهیم هادی

 یدالله

 

ابراہیم بازار کی ایک دکان میں کام کیا کرتا تھا۔  ایک دن میں نے اسے بہت ہی عجیب حالت میں دیکھا   اور حیران رہ گیا۔ اس نے سامان کے دو بڑے کارٹن کندھے پر اٹھا رکھے تھے۔ ایک دکان کے سامنے اس نے یہ کارٹن رکھے۔ جب اس کا لین دین ختم ہو گیا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا۔ اس کے بعد اس سے کہا: ’’ابرام بھائی، تمہارے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ قلیوں کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’کام کرنا تو کوئی عیب نہیں ہے بلکہ بے کار رہنا بری بات ہے۔ یہ کام جو میں انجام دیتا ہوں میرے لیے بہت ہی مناسب ہے۔ اس سے مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ اس طریقے سے میرا غرور مر جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اگر کوئی تمہیں اس حالت میں دیکھ لے تو اچھا نہیں لگے گا۔ تم کھلاڑی ہو۔ بہت سے لوگ تمہیں جانتے ہیں۔‘‘ ابراہیم نے ہنس کر کہا: ’’او یار! ہمیشہ ایسا کام کرو کہ اگر خدا تمہیں دیکھے تو اسے ا چھا لگے نہ کہ لوگ۔‘‘

*****

ہم کچھ دوست اکٹھے بیٹھے ابراہیم کی باتیں کر رہے تھے۔ایک دوست جو اسے نہ جانتا تھا، اس نے میرے ہاتھ سے اس کی تصویر لے کر دیکھی اور پھر حیران ہو کر پوچھا: ’’تمہیں پورا یقین ہے کہ اس کا نام ابراہیم ہے؟!‘‘ میں نے بھی حیران ہو کر کہا: ’’ہاں، یہی ہے۔ کیوں؟‘‘ کہنے لگا: ’’بازارِ سلطانی میں میری دکان ہوتی تھی۔ ابراہیم ہفتے میں دو دن بازار میں آ کر کھڑا ہو جاتا۔  کندھے پر ایک تھیلا لٹکائے بوجھ ڈھوتا رہتا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟ ‘‘ تو اس نے کہا: ’’مجھے یداللہ بلا لیا کریں۔‘‘ کچھ دن بعد اس کا ایک دوست وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے اسے دیکھا تو وہ حیرت سے مجھ کہنے لگا: ’’تم اسےجانتے ہو؟‘‘میں نے کہا: ’’نہیں، بات کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’یہ والی بال اور کشتی کا چیمپئن ہے۔ بہت متقی انسان ہے۔ یہ فقط اپنے نفس کو مارنے کے لیے ایسے کام کرتا رہتا ہے۔ تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ یہ بہت عظیم انسان ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے پھر کبھی ابراہیم کو بازار میں نہ دیکھا۔‘‘ اس دوست کی باتوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ میرے لیے بہت عجیب تھا۔ نفس سے ایسے جنگ کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کافی عرصہ بعد ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم ابراہیم کی باتیں کرنے لگے۔ دوران گفتگو اس نے کہا: ’’انقلاب سے پہلے ایک دن ظہر کے وقت ابرام ہمارے پاس آیا۔ مجھے، میرے بھائی اور دو اور دوستوں کو ایک ریستوران میں لے گیا اور چلو کباب[1]، بہترین کھانا، سلاد اور کولڈ ڈرنک کا آرڈر دیا۔ ‘‘ کھانا کافی مزیدار تھا۔ اس دن تک میں نے ایسا کھانا کبھی نہ کھایا تھا۔کھانے کے بعد ابراہیم نے پوچھا: ’’کھانا کیسا تھا؟‘‘ میں نے کہا: ’’بہت ہی اعلیٰ اور مزیدار۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ اس نے کہا: ’’میں آج صبح سے بازار میں بوجھ ڈھوتا رہا ہوں۔ کھانے کی یہ لذت اس تکلیف کی وجہ سے ہے جو میں نے اس کے پیسے حاصل کرنے کے لیے اٹھائی ہے۔‘‘

 

 

[1]ایک ایرانی کھانا جو چاول اور گوشت کو ملا کر پکاتے ہیں۔ البتہ یہ پاکستانی یا ہندوستانی بریانی سے کافی مختلف ہے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location