ابراہیم بچپن ہی سے امام خمینیؒ کے ساتھ خاص عقیدت و عشق رکھتا تھا۔جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اس عشق میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ انقلاب سے پہلے کے چند سالوں میں یہ عشق اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ 1977 کا سال تھا۔ انقلاب کی اتھل پتھل اور دوسرے مسائل ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ ہم جمعے کی صبح کو ژالہ (شہداء) چوک میں ہونے والے ایک مذہبی پروگرام کے بعد اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے۔ ابھی ہم چوک سے دور نہ گئے تھے کہ کچھ اور دوست بھی ہمارے ساتھ آن ملے۔ ابراہیم ہمیں امام خمینیؒ کے بارے میں بتانے لگا۔ اس کے بعد بلند آواز سے کہا: ’’امام خمینی ، زندہ باد۔‘‘ ہم نے بھی اس کے ساتھ نعرہ لگایا۔کچھ اور لوگ بھی ہمارے ساتھ مل گئے۔ ہم نعرے لگاتے لگاتے شمس چوک تک چلے گئے۔ کچھ دیر بعد پولیس کی کچھ گاڑیاں ہماری طرف آ گئیں۔ ابراہیم نے جلدی سے سب لڑکوں کو متفرق کر دیا۔ ہم لوگ گلیوں میں پھیل گئے۔ دو ہفتے گزر گئے۔ ہم اسی جمعہ کے صبح والے پروگرام سے واپس آ رہے تھے۔ ابراہیم چوک کے کونے میں ایک سینما کے سامنے کھڑا ہو گیا اور زور سے نعرہ لگایا: ’’خمینی، زندہ باد۔‘‘ ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ پروگرام سے جو لوگ نکل رہے تھے وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے اور نعرے لگانے لگے۔ بہت خوبصورت ماحول بن گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس سے پہلے کہ پولیس پہنچ جائے، ابراہیم نے سب کو اِدھر اُدھر کر دیا۔ اس کے بعد ہم اکٹھے ٹیکسی پر بیٹھے اور خراسان چوک کی طرف چل دیے۔ دو چوک عبور کیے تو میں نے دیکھا کہ پولیس نے گاڑیوں کو روک رکھا ہے اور ایک ایک بندے کی چھان بین کر رہے ہیں۔ ساواک کی کچھ گاڑیاں اور تقریباً دس سپاہی سڑک کے کناروں پر کھڑے تھے۔ جو سپاہی گاڑیوں کے اندر جھانک جھانک کر دیکھ رہا تھا وہ ہمارا جاننے والا تھا۔ چوک میں وہ بھی نعرے لگانے والے لوگوں کے ساتھ ہی تھا۔ میں نے ابراہیم کو اشارہ کیا۔ وہ بھی متوجہ ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہماری ٹیکسی تک پہنچیں ابراہیم نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور جلدی سے فٹ پاتھ کی طرف دوڑنے لگا۔ سڑک کے درمیان میں جو سپاہی کھڑا تھا اس نے اچانک سر اٹھا کر ابراہیم کو دیکھا تو چلانے لگا: ’’یہی ہے، یہی ہے، پکڑو اسے۔۔۔‘‘ سپاہی ابراہیم کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ ایک گلی میں گھس گیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ جب سپاہیوں کی توجہ ادھر ادھر ہو گئی تو میں بھی ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر اتر گیا اور سڑک کی دوسری طرف چلنے لگا۔ ظہر کے وقت میں گھر پہنچا۔ ابراہیم کی کوئی خبر نہ تھی۔ رات تک اس کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔ کچھ دوستوں کو کال کر کے پوچھا بھی مگر وہ بھی بے خبر تھے۔ میں بہت پریشان ہو گیا۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ میں اپنے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک گلی سے آواز سنائی دی۔ میں دروازے کی طرف بھاگ کر گیا۔ دیکھا تو ابراہیم اپنے اسی مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دروازے پر کھڑا ہے۔ میں نے دوڑ کر اسے گلے لگا لیا۔ میں بہت خوش تھا اور اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے کہا: ’’کیسے ہو، ابراہیم بھائی؟!‘‘ لمبی آہ بھر کر کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے۔ دیکھ تو رہے ہو، صحیح و سالم تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کھانا کھایا؟‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں، مگر ضروری نہیں ہے۔‘‘ میں جلدی سے گھر کے اندر گیا اور دستر خوان، روٹی اور کچھ کھانا اس کے لیے لے آیا اور کھانے لے کر ہم غیاثی (شہید سعیدی) چوک چلے گئے۔ کچھ لقمے لینے کے بعد وہ کہنے لگا: ’’مضبوط جسم ایسی ہی جگہوں پر کام آتا ہے۔ خدا نے میری مدد کی۔ وہ کافی لوگ تھے مگر پھر بھی میں ان کے ہاتھوں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ اس رات ہم نے انقلاب اور امام خمینی وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں کی۔اس کے بعد طے پایا کہ ہر روز رات کے وقت مسجد لُرزادہ میں آغا چاووشی کی خدمت میں جایا کریں ۔ رات کو میں، ابراہیم اور تین دوسرے دوست مسجد لُرزادہ میں گئے۔آغا چاووشی[1] کافی نڈر بندے تھے۔ منبر پر ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جنہیں اکثر لوگ کہنے کی جرأت بھی نہ رکھتے تھے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث مبارکہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے: ’’قم سے ایک مرد اٹھے گا جو لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا۔ اس کے گرد ایک ایسا گروہ جمع ہو جائے گا جو لوہے کی ٹکڑوں کی طرح مضبوط ہو گا۔‘‘ یہ حدیث لوگوں کےلیے بہت عجیب تھی۔ آغا چاووشی اسی طرح کی انقلابی باتیں کیا کرتے تھے۔ اچانک مسجد کے دروازے کی طرف سے شوروغل سنائی دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ ساواک کے کچھ سپاہی تھے جو لاٹھیاں اور ہاکیاں اٹھائے مسجد میں داخل ہوئے اور آتے ہی نمازوں کو مارنا شروع کر دیا۔ لوگ مسجد سے نکلنے کےلیے بھاگنے لگے۔ جو بھی دروازے سے گزرتا، سپاہی زور سے اسے مارتے تھے۔ عورتوں اور بچوں پربھی وہ رحم نہیں کر رہے تھے۔ ابراہیم کو بہت غصہ آ گیا تھا۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ دست و گریبان ہو گیا۔ وہ بزدل مل کر ابراہیم کو مار رہے تھے۔ اس طریقے سے راستہ کھل گیا اور عورتیں اور بچے مسجد سے باہرنکل گئے۔ ابراہیم پوری بہادری کے ساتھ ان سے لڑ پڑا تھا۔ اس نے اچانک ہی کچھ سپاہیوں کو مار پلائی اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے مسجد سے دور ہوتے گئے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ آغا چاووشی کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ کچھ لوگ شہید ہو گئے ہیں اور کچھ زخمی۔ اس رات ابراہیم کی کمر پر جو چوٹیں لگی تھیں، ان سے کمر میں ایسا درد ہوا کہ زندگی کے آخری لمحات تک اس درد نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ کشتی کے وقت بھی وہ درد اسے کافی تنگ کرتا تھا۔ جیسے ہی 1978کے ہنگامے شروع ہوئے تو ابراہیم کا سارا ہم و غم انقلاب اور امام خمینی تھے۔ امام کی تقاریر کی کیسٹز اور مختلف قسم کے اعلامیے تقسیم کرنے کا کام وہ نہایت ہی دلیرانہ طریقے سے انجام دیتا تھا۔ ستمبر کے دن تھے۔ وہ بہت سے جوانوں کو قیطریہ کے ٹیلوں کی طرف لے گیا اور شہید مفتح کی نماز عید فطر میں شرکت کی۔ نماز کےبعد اعلان ہوا کہ جمعے کو ژالہ چوک کی طرف ایک احتجاجی ریلی نکالی جائے گا۔
[1]ایک انقلابی عالم دین جو منافقین کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.