8 ستمبر

 

8 ستمبر کی صبح تھی۔ میں ابراہیم کے پاس گیا اور پھر ہم موٹر سائیکل پر بیٹھ کر میدان ژالہ (شہداء) کے پاس ہونے والے اسی مذہبی پروگرام میں چلے گئے۔ پروگرام ختم ہوا تو باہر سے بہت زیادہ شورشرابے کی آواز آنے لگی۔آدھی رات کو مارشل لاء کا اعلان ہو گیا تھا۔ زیادہ تر لوگ اس بات سے بے خبر تھے۔چوک کے اردگرد بہت سے فوجی اور سپاہی تعینات ہو گئے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم چوک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سپاہی لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کو منتشر ہونے کی ہدایت کر رہے تھے۔ ابراہیم جلدی سے پروگرام سے نکلا اور فوراً پلٹ کر مجھے کہنے لگا: ’’امیر، آؤ دیکھیں، کیا صورتحال ہے؟‘‘ میں اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی چوک پر لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ وہ ’’خمینی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے لگاتے ’’شاہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانا شروع ہو گئے تھے۔ ’’شاہ مردہ باد‘‘ کی آواز گونج رہی تھی۔ چوک کی طرف لوگوں کا اژدہام ہو گیا تھا۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ساواکیوں[1] نے چوک کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ تھوڑی دیر گزری تو ایسی صورتحال پیش آ گئی جس کا کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ ہر طرف سے گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی حتی کہ چوک سے دور آسمان پر اڑتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے بھی گولیاں چل رہی تھیں۔ میں جلدی سے موٹر سائیکل لے آیا تھااور ایک گلی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ وہاں کوئی سپاہی نہیں کھڑا تھا۔ ابراہیم جلدی سے ایک زخمی کو لے آیا تھا۔ ہم جلدی سے 3 شعبان ہسپتال پہنچے اور فوراً واپس ہو لیے۔ ظہر کے نزدیک تک ہم تقریباً آٹھ بار ہسپتال آئے گئے۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے اور پھر پلٹ جاتے۔ ابراہیم کا سارا جسم خون میں لت پت ہو چکا تھا۔ ایک زخمی پٹرول پمپ کے پاس گرا ہوا تھا۔ سپاہی دور سے دیکھ رہے تھے۔ کوئی اسے اٹھانے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا۔ ابراہیم اس زخمی کی طرف جانا چاہتا تھامگر میں نے اسے روک کر کہا: ’’انہوں نے زخمی کو چارے کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اگر تم نے حرکت کی تو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔‘‘ ابراہیم نے پلٹ کر سوال کر دیا: ’’اگر تمہارا اپنا بھائی ہوتا تو تب بھی تم یہی کہتے؟!‘‘ میں لاجواب ہو کر رہ گیا، اسے فقط اتنا کہہ سکا: ’’دھیان رکھنا۔‘‘ گولیوں کی آواز کم ہو چکی تھی۔ سپاہی تھوڑا پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ابراہیم جلدی سے سینے کے بل چلتے ہوئے سڑک پر چلا گیا اور زخمی کے پاس جا کر لیٹ گیا۔ اس کے بعد زخمی کے ہاتھ کو پکڑا اور اسے اپنی کمر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد اسی طرح سینے کے بل چلتا ہوا واپس آ گیا۔ اس موقع پر ابراہیم نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد ابراہیم نے اسے اور ایک اور زخمی کو میری موٹرسائیکل پر بٹھایا اور میں چل پڑا۔ واپسی پر سپاہیوں نے گلی پر ناکہ لگا دیا تھا۔ مارشل لاء شدت اختیار کر گیا تھا۔ ابراہیم بھی گم ہو گیا تھا لیکن میں جیسے تیسے اپنے گھر کو واپس آ گیا۔ سہ پہر کو میں ابراہیم کے گھر چلا گیا۔ اس کی ماں کافی پریشان تھیں۔ کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہ تھا۔ ہم کافی بے چین تھے۔ رات گئے کسی نے بتایا کہ ابراہیم واپس آ گیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا۔ وہ اتنے مضبوط جسم کی وجہ سے سپاہیوں کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ اگلے دن ہم بہشت زہرا[2] چلے گئے اور شہداء کی تدفین میں ہاتھ بٹایا۔ 8 ستمبر کے بعد ہر رات ہم میں سے ایک کے گھر ایک میٹنگ رکھی جاتی تاکہ آئندہ کے پروگراموں کو منظم کیا جا سکے۔ ایک عرصہ تک ابراہیم کے گھر کی چھت پر ہماری یہ میٹنگ ہوتی رہی اور پھر اس کے بعد کچھ دنوں تک مہدی کے گھر پر۔ان ملاقاتوں میں ہر قسم کے مسائل خصوصاً اعتقادی اور حالیہ سیاسی مسائل زیرِ بحث رہتے۔ امام خمینیؒ کے ایران واپس پلٹ آنے کی خبر آنے تک ان ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

 

[1]ساواک ’’سازمان اطلاعات و امنیت کشور‘‘ (قومی ادارہ جاسوسی و امن و امان)  کا مخفف ہے۔ ایرانی شاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے حکم سے بنایا جانے والا خونخوار انٹیلی جنس ادارہ جس کا کام بظاہر ایران کے داخلی امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے جاسوسی کافریضہ انجام دینا تھا مگر شاہ اسے اپنے مخالفین کو جکڑنے کے لیے ہی استعمال کرتا تھا۔ خصوصاً اس ادارے نے امام خمینیؒ کی رہبری میں اٹھنے والے انقلاب کی لہر کو سختی سے دبانےکے لیے بہت ہی ظالمانہ کردار نبھایا۔

[2]تہران کا مشہور قبرستان۔جب  امام خمینیؒ جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے تو وہیں اترے اور اپنی مشہور زمانہ تقریر کی۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location