کئی عظیم شخصیات کی زندگی میں گناہانِ کبیرہ سے اجتناب کے نمونے دکھائی دیتے ہیں۔یہ عمل روحانی سفر میں ان کی تیز ترقی کا باعث بنتا ہے۔نفس پر قابو پانے کا یہ عمل زیادہ تر شہوانی اور جنسی امور میں ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بھی خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: ’’اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘[1] یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ یہ قانون صرف حضر ت یوسف علیہ السلام ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عمومی ہے۔ انقلاب کی کامیابی کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ابراہیم کا چہرہ اور قد و قامت پہلے سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہر روز خوبصورت کوٹ پینٹ میں کام پر آتا تھا۔ وہ تہران کے شمال میں ایک جگہ کام کرتا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ کافی بے چین لگ رہا ہے۔ اپنے آپ میں کھویا کھویا بہت ہی کم باتیں کر رہا تھا۔ میں نے اس کے پاس جا کر پوچھا: ’’ابراہیم بھائی، کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا: ’’کچھ نہیں، کچھ خاص نہیں۔‘‘ لیکن یہ بات یقینی تھی کہ اسے کوئی نہ کوئی پریشانی ضرور ہے۔ میں نے کہا: ’’اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتا دو، شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے کہنے لگا: ’’اس محلے کی ایک بے پردہ لڑکی کچھ دنوں سے میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب تک تمہیں حاصل نہ کر لوں، تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ میں سوچ میں پڑ گیا، پھر اچانک میری ہنسی نکل گئی۔ابراہیم نے حیرانی سے سر اٹھا کر پوچھا: ’’یہ ہنسنے کی بات ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ابراہیم بھائی، میں تو ڈر گیا تھا کہ نہیں معلوم کیا ہو گیا ہے جو تم اتنے پریشان ہو؟‘‘ اس کے بعد میں نے ابراہیم کے قد و قامت پر نظر ڈالتے ہوئے کہا: ’’جیسا تمہارا حلیہ ہے، اس پر اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا: ’’کیا مطلب؟ یعنی میرے اس حلیے کی وجہ سے اس لڑکی نے یہ بات کی ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا: ’’ہاں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ اگلے روز جیسے ہی ابراہیم کو میں نے دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔ بال صفاچٹ، کوٹ پینٹ کے بغیر ہی کام پر آ گیا تھا۔ اس سے اگلے دن ایک لمبی سی قمیص، کُردی شلوار، پاؤں میں ہوائی چپل پہنے اور بکھرا بکھرا چہرہ لیے آن دھمکا۔ کچھ دن تک وہ اسی حلیے میں آتا رہا۔ بالآخر اس شیطانی وسوسے سے اس کی جان چھوٹ گئی۔
*****
مختلف مسائل کو گہرائی سے دیکھنا اور دِقّت کے ساتھ عمل کا مظاہرہ کرنا ابراہیم کی خصوصیات میں سےایک اہم خصوصیت تھی۔ یہ خصوصیت اسے اس کے دوسرے دوستو ں سے ممتاز کرتی تھی۔ مارچ 1979 کے ایام تھے۔ ہم انقلاب کمیٹی کے کچھ جوان ابراہیم کے ساتھ ایک جگہ چھاپہ مارنے گئے۔ اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص جو انقلاب سے پہلے شاہ کی طرف سے فوجی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور انقلاب کمیٹی جسے تلاش کر رہی تھی، اسے ایک اپارٹمنٹ میں دیکھا گیا ہے۔اس جگہ کا پتا ہمارے پاس تھا۔ ہم دو گاڑیاں لیے اسی اپارٹمنٹ میں پہنچ گئے۔ جیسے ہی مطلوبہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو بغیر کسی ہاتھا پائی کے وہ شخص گرفتار کر لیا گیا۔ ہم اسے اپارٹمنٹ سے باہر لانا چاہتے تھے۔ اسے دیکھنے کے لیے باہر لوگوں کی بھِیڑ لگ گئی۔ ان میں سے اکثر اسی اپارٹمنٹ کے رہنے والے تھے۔ اچانک ابراہیم اپارٹمنٹ میں واپس آ گیا اور کہنے لگا: ’’ٹھہرو۔‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے کچھ نہ کہا۔ فقط اپنی کمر سے باندھا ہوا اپنا رومال کھولا اور اس شخص کا چہرہ ڈھانپنے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’ابرام، یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس نے اس کاچہرہ ڈھانپتے ہوئے کہا: ’’ہم نے ایک فون کال اور اطلاع پر اس شخص کو گرفتار کیا ہے۔ اگر اس کے بارے میں دی گئی اطلاع درست نہ ہوئی تو اس بے چارے کی عزت خاک میں مل جائے گی اور اس کے لیے یہاں زندگی گزارنا اجیرن ہو جائے گا۔ سارے لوگ اسے ایک ملزم کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ اب اس حالت میں اسے کوئی نہیں پہچانے گا۔ اگر کل کو یہ آزاد ہو جاتا ہے تو اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘ جب ہم اس اپارٹمنٹ سے نکلے تو کسی نے بھی اس مشتبہ شخص کو نہیں پہچانا۔ میں ابراہیم کی باریک بینی اور ہوشیاری سے متعلق سوچنے لگا۔ اس کی نظر میں انسانوں کی عزت و آبرو کی کتنی اہمیت تھی۔