شهید ابراهیم هادی

لوگوں کی امداد

 

’’انسان میرا خاندان ہیں۔ پس میرے نزدیک سب سے محبوب بندے وہ ہیں جو انسانوں کے لیے زیادہ مہربان ہیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ‘‘[1]

کافی عجیب بات تھی۔ شہید سعیدی روڈ کے شروع میں لوگوں کی کافی زیادہ بھِیڑ لگی ہوئی تھی۔ میں اور ابراہیم آگے بڑھے۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘بتایا گیا: ’’یہ لڑکا ذہنی مریض ہے۔ ہر روز یہاں آ جاتا ہے اور نہر سے گندے پانی کی بالٹی بھر کر خوش پوش اور خوبصورت لوگوں پر پھینک دیتا ہے۔‘‘لوگ آہستہ آہستہ وہاں سےہٹ رہے تھے۔ ایک مرد جس نے کافی صاف ستھرا اور سلجھا ہوا کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا، اسے اس لڑکے نے گیلا کر دیا تھا۔ اس مرد نے کہا: ’’نہیں معلوم اس ذہنی مریض کا کیا علاج کروں۔‘‘ وہ مرد بھی چلا گیا۔ اب میں، ابراہیم اور وہ لڑکا رہ گئے تھے۔ابراہیم نے اس لڑکے سے پوچھا: ’’تم کیوں لوگوں کو گیلا کرتے ہو؟‘‘وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘ابراہیم نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا: ’’کوئی تمہیں پانی پھینکنے کو کہتا ہے؟‘‘لڑکے نے کہا: ’’وہ مجھے پانچ ریال دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس پر پانی پھینکوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے سڑک کی ایک طرف اشارہ کیا۔وہاں تین آوارہ اور لوفر قسم کے جوان کھڑے ہنس رہے تھے۔ ابراہیم ان کی طرف جانا چاہ رہا تھا مگر رک گیا۔ کچھ سوچ کر اس لڑکے سے کہا: ’’بیٹا، تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘ لڑکے نے اپنے گھر کا راستہ بتایا۔ ابراہیم نے اسے کہا: ’’اگر تم لوگوں کو تنگ نہ کرو تو میں تمہیں روز دس ریال دیا کروں گا۔ ٹھیک ہے؟‘‘لڑکا مان گیا۔ جب ہم ان کے گھر کے سامنے پہنچے تو ابراہیم نے اس کی ماں سے اس بابت بات کی۔ اس طریقے سے لوگوں کے سروں سے وہ بلا ٹل گئی۔

*****

ہم محکمہ کھیل کے جانچ پڑتال کے شعبے میں کام میں مصروف تھے۔ تنخواہ لینے اور دفتری وقت ختم ہونے کے بعد ابراہیم نے پوچھا: ’’موٹر سائیکل لائے ہو؟‘‘میں نے کہا: ’’ہاں، کیوں؟‘‘ کہنے لگا: ’’اگر تمہیں کوئی کام نہیں ہے تو میرے ساتھ آؤ۔ دکان تک جانا ہے۔‘‘ اس نے اپنی تقریباً ساری تنخواہ سے خریداری کر لی۔ چاول، گوشت سے لے کر صابن تک ہر چیز خرید لی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے خریداری کے لیے کوئی لسٹ دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہم اکٹھے مجیدیہ کی طرف چلے گئے۔ ایک گلی میں داخل ہوئے تو ابراہیم نے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک معمر خاتون جس نے صحیح طریقے سے حجاب بھی نہ اوڑھ رکھا تھا، دروازے پر آئی۔ ابراہیم نے سامان اس کے حوالے کر دیا۔ اس خاتون نے گلے میں صلیب پہن رکھی تھی۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ واپسی پر میں نے پوچھا: ’’ابرام بھائی، یہ خاتون ارمنی تھی؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں، کیوں؟‘‘میں  نے موٹر سائیکل سڑک کنارے روک دی اور غصے سے کہا: ’’یار، یہ سارے غریب مسلمان ہیں، اور تمہیں مسیحیوں کی پڑی ہوئی ہے!‘‘ اس نے اسی طرح میرے پیچھے بیٹھے بیٹھے کہا: ’’مسلمانوں کی مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ابھی نئی نئی امداد کمیٹی بنی ہے، وہ ان کی مدد کرتی ہے، لیکن ان بے چاروں کا کوئی نہیں  ہے۔ اس طرح ان کی مشکلات بھی کم ہو جائیں گی اور ان کے دل میں امام اور انقلاب سے محبت بھی پیدا ہو جائے گی۔‘‘

*****

ابراہیم کی شہادت کو 26 سال گزر چکے ہیں۔ کتاب کے مطالب جمع بھی ہو گئے اور طباعت کے لیے آمادہ بھی ہو گئے۔ ایک دن مسجد کے ایک نمازی نے مجھے بلا کر کہا: ’’آغا ابراہیم کی رسومات کے لیے کوئی بھی کام ہو تو ہم حاضرِ خدمت ہیں۔‘‘ میں نے تعجب سےپوچھا: ’’آپ شہید ہادی کو پہچانتے ہیں؟ ان سے کبھی ملے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں،پچھلے سال جب ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہو رہی تھیں، اس وقت تک میں شہید ابراہیم ہادی کے بارے میں نہیں جانتا تھا، مگر شہید ابراہیم ہادی کا میری گردن پر بہت بڑا حق ہے۔‘‘ مجھے جانے کی جلدی تھی مگر پھر بھی اس شخص کے نزدیک ہو کر بیٹھ گیا اور تعجب سے پوچھا: ’’کون سا حق؟‘‘ وہ بتانے لگا: ’’پچھلے سال ان کی یاد میں منعقد کی جانے والی ایک یادگاری تقریب میں آپ لوگوں نے آغا ابراہیم کی تصویر والے چابی کے چھلّے تقسیم کیے تھے۔ میں نے بھی ایک لیا تھا اور اپنی گاڑی کی چابی اس میں ڈال لی تھی۔ کچھ دن پہلے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک سفر سے لوٹ رہا تھا۔ راستے میں ہم ایک ریسٹورنٹ پر رُکے۔ جب گاڑی میں سوار ہونے لگے تو مجھے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ چابی تو گاڑی ہی میں رہ گئی ہے۔ دروازے بند تھے۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا: ’’تمہارے پاس دوسری چابی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی: نہیں، میرا پرس بھی گاڑی میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ مجھے کافی پریشانی ہوئی۔ لاکھ جتن کیے مگر دروازہ نہ کھلا۔ سردی زوروں پر تھی۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ شیشہ توڑ دوں لیکن موسم کافی سرد تھا اور سفر طولانی۔ اچانک میری نظر گاڑی کے اندر چھلے پر موجود ابراہیم کی تصویر پر پڑی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میری طرف ہی دیکھ رہا ہو۔ میں نے بھی تھوڑی دیر اس پر نگاہ جمائے رکھی۔ پھر کہا: ’’آغا ابراہیم، میں نے سنا ہے کہ جب تک تم زندہ تھے لوگوں کی مشکلات حل کرتے رہتے تھے۔ شہید تو ہمیشہ کے لیے زندہ ہوتا ہے۔‘‘ پھر میں نے دعا کی: ’’خدایا، شہید ہادی کی عزت کا واسطہ، میری مشکل حل فرما۔‘‘ اسی طرح اچانک میرا ہاتھ میرے کوٹ کی جیب  میں گیا۔ میں نے گھر کی چابیوں کو گچھا نکالا اور بلاارادہ ایک چابی دروازے کی تالے میں ڈال دی۔ تھوڑی سی ہلائی تو تالہ کھل گیا۔ ہم خوشی سے نہال ہو گئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد میری نظر آغا ابراہیم کی تصویر پر جم گئی۔ میں نے کہا: ’’بہت شکریہ، انشاء اللہ میں اس احسان کی بدلہ اتاروں گا۔‘‘ ابھی ہم نے حرکت نہیں کی تھی کہ میری بیوی نے پوچھا: ’’گاڑی کا دروازہ کس چابی سے کھلا ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا: ’’ہاں، تم سچ کہہ رہی ہو۔ کون سی چابی تھی بھلا؟‘‘ میں گاڑی سے اتر گیا اور ایک ایک کر کے ساری چابیان لگا کر دیکھ لیں، لیکن دروازہ کسی چابی سے کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ایک گہرا سانس لیا اور کہا: ’’آغا ابرام، تمہارا بہت بہت شکریہ۔ تم شہادت کے بعد بھی لوگوں کی مشکلات حل کر رہے ہو۔‘‘

 

[1]حدیث قدسی، امام جعفر صادق علیہ السلام۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location