کردستان
1979 کی گرمیوں کا موسم تھا۔ہم نماز ظہرین کے بعد مسجد سلمان کے سامنے کھڑے تھے۔ میں ابراہیم سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک ہمارا ایک دوست جلدی سے آیا اور کہنے لگا: ’’امام کا پیغام سنا تم نے؟‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا: ’’نہیں، کیا کہا انہوں نے؟‘‘ اس نے بتایا: ’’امام نے حکم دیا ہے کہ کردستان کے جوانوں اور مجاہدوں کو محاصرے سے نجات دلاؤ۔‘‘ فوراً محمد شاہرودی بھی آ گیا اور کہنے لگا: ’’میں، قاسم تشکری اور ناصر کرمانی کردستان جا رہے ہیں۔‘‘ابراہیم نے کہا: ’’ہم بھی ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم چلے گئے تا کہ جانے کی تیاری کر سکیں۔ سہ پہر کے چار بجے تھے۔ ہم گیارہ لوگ ایک بلیزر گاڑی میں بیٹھ کر کردستان کی طرف چل دیے۔ ایک MG3 کلاشنکوف، چار بندوقیں اور چند عدد دستی بم ہمارا کل اثاثہ تھے۔اکثر راستے بند تھے۔ کئی جگہوں پر ہمیں کچے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔لیکن خدا کی مدد سے اگلے دن ظہر کے وقت ہم سنندج پہنچ گئے اور ہر طرف سے بے خبر شہر میں داخل ہو گئے۔ ایک اخبار فروش کے کھوکھے کے سامنے جا کر ہم رُک گئے۔ ابراہیم چھاؤنی کا پتا پوچھنے کے لیے اتر پڑا ۔ کھوکھے پر پہنچتے ہی اچانک وہ چلانے لگا: ’’بے دین انسان، یہ کیا بیچ رہے ہو؟‘‘ میں نے حیرت سے دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کھوکھے کے کنارے کچھ قطاروں میں شراب کی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ ابراہیم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسلحہ اٹھایا اور بوتلوں پر گولیاں برسانے لگا۔ بوتلیں ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔اس کے بعد اس نے باقی بچ رہنے والی بوتلوں کو بھی توڑ دیا اور غصے میں بھرا ہوا کھوکھے والے جوان کے پاس گیا۔ وہ بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ڈر کے مارے کھوکھے کے ایک کونے میں جا چھپا تھا۔ ابراہیم نے اس کی طرف دیکھتےہوئے نرمی سے کہا: ’’میرے دوست، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ یہ کیا نجاستیں بیچ رہے ہو۔ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ یہ سب نجاستیں شیطان کی طرف سے ہیں۔ ان سے دور رہو۔[1]‘‘ جوان نے تائید کے انداز میں اپنا سر ہلایا۔ وہ مسلسل کہے جا رہا تھا: ’’مجھ سےغلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دیں۔‘‘ ابراہیم نے تھوڑی دیر اس سے باتیں کیں۔ پھر ہم اکٹھے باہر آ گئے۔ اس جوان نے ہمیں چھاؤنی کا پتا بتایا اور ہم چل پڑے۔ ایم جی تھری کی گولیوں کی آواز نے شہر کی خاموشی کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ سڑک پر سبھی ہمیں دیکھے جا رہے تھے۔ ہم بھی کسی کی پرواہ کیے بغیر شہر میں گھوم رہے تھے۔ بالآخر ہم سنندج چھاؤنی میں پہنچ گئے۔ چھاؤنی کی تمام دیواروں پر مٹی سے بھری بوریاں چن دی گئی تھیں۔ وہ جگہ ایک فوجی قلعے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ عمارت کی تو کوئی چیز نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ ہم نے بہتیرا دروازہ کھٹکھٹایا مگر بے سود۔ کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ اندر ہی سے کہے جا رہے تھے: ’’شہر انقلاب مخالف لوگوں کے قبضے میں ہے۔ تم بھی یہاں مت ٹھہرو۔ ایئر پورٹ کی طرف چلے جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا: ’’ہم تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں۔ اچھا، کم سے کم یہ تو بتا دو کہ ایئر پورٹ کہاں ہے؟‘‘ ایک فوجی دیوار کی منڈیر پر سے جھانک کر کہنے لگا: ’’یہاں صورتحال بہت خراب ہے۔ ممکن ہے تمہاری گاڑی کو بھی تباہ کر دیں۔ جلدی جلدی اس طرف کے راستے سے شہر سے نکلو، تھوڑا آگے جا کر ایئرپورٹ پہنچ جاؤ گے۔ وہاں انقلابی فوج ٹھہری ہوئی ہے۔‘‘ ہم ایئر پورٹ کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر ہمیں سنندج کی صحیح صورتحال کا اندازہ ہوا۔ چھاؤنی اور ایئرپورٹ کے علاوہ سارا شہر انقلاب مخالف گروہوں کے قبضے میں تھا۔ فوج کی تین بٹالینز کے جوان وہاں تھے۔ سپاہ[2] کی ایک بٹالین بھی ایئر پورٹ ہی پر ٹھہری ہوئی تھی۔ شہر کے اندر سے ایئرپورٹ کی طرف گولہ باری ہوتی رہتی تھی۔ محمد بروجردی کو پہلی بار ہم نے وہیں دیکھا تھا: داڑھی اور سنہری بالوں والا جوان، خوبصورت اور مسکراتا ہوا چہرہ۔ برادر بروجردی ان حالات میں بھی بہت ہی اچھے انداز میں اپنے ماتحتوں سے کام لے رہا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ملک کی مغربی سپاہ کا کمانڈر ہے۔ ایک دن بعد ہم نے برادر بروجردی سے ایک میٹنگ رکھی۔ فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا: ’’امام خمینیؒ کے فرمان کی وجہ سے کافی زیادہ فوج آ رہی ہے اور وہ ابھی راستے میں ہے۔ انقلاب مخالف بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ شہر کے اندر ان کے دو اہم ٹھکانے ہیں۔ ان دونوں ٹھکانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی ہمارے پاس ہونا چاہیے۔‘‘ مختلف تجاویز و آراء پیش کی گئیں۔ ابراہیم نے کہا: ’’جیسا کہ شہر کے حالات سے نظر آ رہا ہے کہ عام شہریوں کو انقلاب مخالف گروہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ان کے ایک ٹھکانے پر ہم حملہ کر دیتے ہیں اور جب کامیاب ہو جائیں گے تو پھر دوسرے ٹھکانے کی خبر لیں گے۔‘‘ سب نے اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔ طے پایا کہ جوانوں کو حملے کے لیے تیار کریں، لیکن اسی روز سپاہ کے جوانوں کو پاوہ کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔ اب کمانڈ کے پاس فقط فوجی جوان ہی رہ گئے تھے۔ ابراہیم اور دوسرے دوست ایک ایک کر کے فوجیوں کے مورچوں میں جاتے، ان سے باتیں کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے۔اس کے بعد انہوں نے کہیں سے تربوزوں کی ایک گاڑی کا بندوبست کر لیا اور سارے تربوز فوجیوں میں تقسیم کر دیے۔ اس طریقے سے اپنے جونیئر فوجیوں کےساتھ ان کی دوستی مضبوط ہو گئی۔ انہوں نے مختلف پروگراموں کے ذریعے سے فوجیوں کا مورال کافی بلند کر دیا۔ ایک روز صبح کے وقت فوجی جوانوں میں آغا خلخالی کا اضافہ ہو گیا۔ دوسرے مختلف شہروں سے جنگجو جوانوں کی کافی تعداد بھی سنندج ایئرپورٹ پر پہنچ گئی۔ ضروری تیاری کے بعد جوانوں میں مختلف مہمیں اور ان کی ذمہ داریاں تقسیم کر دی گئیں۔ ظہر سے پہلے تک ہم نے انقلاب مخالف لوگوں کے ایک ٹھکانے پر حملہ کر دیا۔ ہماری توقع سے کہیں بڑھ کر جلد ہی اس جگہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے انقلاب مخالف گروہ کے بہت سے افراد گرفتار کر لیے۔ اس ٹھکانے سے بہت زیادہ تعداد میں حملوں کی تفصیل، کافی مقدار میں ڈالرز، جعلی پاسپورٹس اور شناختی کارڈز بھی برآمد ہوئے۔ ابراہیم نے ان سب چیزوں کو ایک بوری میں ڈالا اور سپاہ کے سربراہ کے حوالے کر دیا۔ انقلاب مخالف گروہ کا دوسرا ٹھکانہ بھی بغیر ہاتھ پاؤں چلائے ہمارے قبضے میں آ گیا۔ شہر پر دوبارہ انقلابی جوانوں کا قبضہ ہو گیا۔ وہاں کے فوجیوں کا کمانڈر کہا کرتا تھا: ’’اگر چند سال اور بھی ہم صبر کرتے تب بھی میرے فوجی جوانوں میں ایسا حملہ کرنے کی جرأت پیدا نہ ہوتی۔ اس سلسلے میں ہم برادر ہادی اور دوسرے جنگجو دوستوں کے مرہونِ احسان ہیں۔ انہوں نے فوجی جوانوں سے دوستی کر کے ان کے مورال کو بہت زیادہ بلند کر دیا تھا۔‘‘ اس عرصے میں کمانڈرز نے ابراہیم اور دوسرے جوانوں کو بہت سے فوجی فنون اور جنگ کے طور طریقے سکھائے، جنہوں نے ان جوانوں کو بہادر اور نڈر فوجیوں میں تبدیل کر دیا۔ اس کا نتیجہ دفاع مقدس میں کھل کر سامنے آیا۔ اگرچہ کردستان کے دوسرے شہروں میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں مگر سنندج کے حالات زیادہ لمبے عرصے تک خراب نہ رہے اور جلد ہی اپنے معمول پر آ گئے۔ ستمبر 1979 میں ہم تہران واپس آ گئے۔ قاسم اور کچھ دوسرے جوان کردستان ہی میں رہ گئے اور شہید چمران کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔ تہران واپس آنے کے بعد ابراہیم محکمہ کھیل اور ورزش کے شعبۂ تفتیش سے محکمہ تعلیم و تربیت میں چلا گیا مگر اس کی درخواست قبول نہ ہوئی، البتہ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر قبول کر لی گئی۔ اس نے ایک ایسے کمپلیکس میں اپنی ذمہداری سنبھال لی جہاں اس جیسے لوگوں کی شدید ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔