شهید ابراهیم هادی

آئیڈیل استاد

 

ابراہیم کہا کرتا تھا: ’’اگر یہ طے ہے کہ انقلاب کو زندہ رہنا ہے اور آئندہ نسل کو انقلابی ہونا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ہم سکولوں میں اپنی فعالیت انجام دیں کیونکہ مستقبل میں مملکت ان لوگوں کے حوالے ہو گی جنہوں نے طاغوت کے زمانے کے حالات کو محسوس نہ کیا ہو گا۔‘‘ جب وہ دیکھتا کہ ایسے اشخاص سکولوں میں استاد کے طور پر موجود ہیں جو اصلاً انقلابی نہیں ہیں تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ وہ کہتاتھا: ’’ہمارے سکولوں اور بالخصوص ہائی سکولوں میں بہترین اور خالص ترین انقلابی جوانوں کو موجود ہونا چاہیے۔‘‘ اسی وجہ سے وہ تھوڑی سردردی والے کام کو   چھوڑ کر ٹھیک ٹھاک الجھائے رکھنے اور کم تنخواہ والے کام میں چلا گیا۔ مادیات تنہا ایسی چیز تھی جس کی ابراہیم کو کبھی فکر نہ ہوتی تھی۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’روزی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پیسوں میں برکت کا ہونا زیادہ اہم ہے۔ جو کام بھی خدا کے لیے ہو گا اس میں حتماً برکت بھی ہو گی۔‘‘ بہر حال اس نے دو سکولوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ابوریحان ہائی سکول (منطقہ 14) میں کھیل کے استاد جبکہ تہران منطقہ 15 میں معذور بچوں کے ایک سکول میں عربی کی تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔ عربی کی تدریس اس نے زیادہ عرصے تک نہ کی۔ اسی سال کے کچھ ماہ گزرے تو اس کے بعد وہ پھر کبھی معذور بچوں کے سکول میں نہ گیا اور نہ ہی اس نے نہ جانے کی وجہ کبھی بتائی۔ ایک دن اسی سکول کے پرنسپل میرے پاس آ کر کہنے لگے: ’’آپ ہادی کے بھائی ہیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ ان سے کہیں کہ وہ سکول میں واپس آ جائیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟‘‘تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولے: ’’دراصل ابراہیم اپنے ایک شاگرد کو اپنی جیب سے پیسے دیتا تھا تا کہ ہر روز پہلے پیریڈ میں پوری جماعت کے لیے روٹی اور پنیر خرید کر لے آئے۔ ہادی کا خیال تھا کہ یہ بچے پسماندہ علاقے سے ہیں، جن میں اکثر کلاس کے دوران بھوکے ہوتے ہیں۔ بھوکا بچہ کبھی بھی درس کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکتا۔‘‘ پرنسپل نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں نے ہادی سے اس بابت سختی سے بات کی اور کہا کہ تم نے ہمارے مدرسے کا نظم و ضبط بگاڑ کر رکھ دیا، حالانکہ اس  کے اس اقدام سے ہمارے مدرسے کے نظم و ضبط میں کوئی خلل واقع نہ ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس پر چلاتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ تمہیں یہاں اس کام کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہادی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور اس وقت اس نے کسی اور سکول میں اپنی جماعتوں کا انتظام کر لیا۔ اب تمام طلاب اور ان کے والدین میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ابراہیم ہادی کو واپس لے کر آؤں۔ سبھی اس کے اخلاق اور تدریس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ اس نے اس تھوڑے سے عرصے میں بہت سے بے سروسامان اور یتیم طلبہ کے لیے وسائل مہیا کیے کہ جن کی مجھے بھی خبر نہیں تھی۔‘‘ میں نے ابراہیم سے اس بارے میں بات کی اور پرنسپل کی باتیں اسے بتائیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس نے اس وقت دوسرے سکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ ابراہیم ابوریحان ہائی سکول میں فقط کھیل کا استاد ہی نہیں بلکہ بچوں کے اخلاق و کردار کا بھی استاد تھا۔ طلاب نے بھی اپنے استادکی پہلوانی اور چیمپئن شپ کے قصے سن رکھے تھے، وہ بھی اس پر شیفتہ تھے۔ اس زمانے میں جب اکثر انقلابی جوان اپنے ظاہری حلیے پر اتنی توجہ نہیں دیتے تھے، ابراہیم کوٹ پینٹ میں بن ٹھن کر سکول میں آیا کرتا تھا۔ خوبصورت اور نورانی چہرے، جاذب گفتگو اور اچھے رویے نے ایک مکمل استاد بنا دیا تھا۔ جماعت کے دوران سرگرمی میں وہ کافی مہارت رکھتا تھا۔ موقع پر ہنستا اور مناسب موقع پر طلاب کو اپنی طرف جذب کرتا اور تفریح کے وقت سکول کے صحن میں آ جاتا۔ اکثر طلاب ہادی کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے۔ وہ سب سے پہلے سکول میں حاضر ہوتا اور سب سے آخر میں نکلتا۔ اس کے آس پاس ہر وقت طلاب کا جمگھٹا رہتا۔ اس زمانے میں جب سیاسی حالات میں کافی ہلچل مچی ہوئی تھی، ابراہیم نے انقلاب کی خدمت کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ مجھےا چھی طرح یاد ہے کہ کچھ طلاب مختلف سیاسی جماعتوں سےمتاثر ہو گئے تھے۔ ابراہیم نے ایک رات ان سب کو مسجد میں بلایا۔ انقلابی مسائل کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے کچھ انقلابی دوستوں کو مدعو کیا اور سوال و جواب کی ایک نشست رکھی۔ اس رات ان طلاب کے تمام سوالوں کے جواب دیے گئے۔ جب اس رات نشست ختم ہوئی تو اڑھائی بچ چکے تھے۔ 80-1979؁ کے تعلیمی سال میں ہادی بہترین سیکرٹری کے ایوارڈ کے لیے منتخب ہوا، اگرچہ یہ اس کی تدریس کا پہلا اور آخری سال تھا۔ 23 ستمبر 1980؁ میں تہران کے منطقہ 12 میں تعلیم و تربیت کے لیے ابراہیم کی ملازمت کا آرڈر جاری ہوا، لیکن جنگ کے حالات کی وجہ سے وہ جماعت میں نہ جا سکا۔ اس سال ابراہیم کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ سکول میں تدریس، کمیٹی میں مشغولیت، زورآزمائی اور کشتی، مسجد اور انجمن میں نوحہ خوانی و منقبت خوانی اور بہت سے انقلابی پروگرامز میں اس کی شرکت وغیرہ کہ ان سرگرمیوں میں سے ہر ایک کو انجام دینے کے لیے کئی افراد کی ضرورت پڑتی تھی۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location