اس کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور نماز تھی۔ حالات جیسے بھی ہوں، ابراہیم نماز کو ہمیشہ اول وقت ہی میں پڑھتا تھا اور وہ بھی زیادہ تر مسجد میں جماعت کے ساتھ۔ وہ دوسروں کو بھی نماز باجماعت کی دعوت دیا کرتا تھا۔ وہ امیر المومنین علیہ السلام کی اس حدیث کا واضح مصداق تھا، جس میں امامؑ فرماتے ہیں: ’’جو شخص بھی مسجد میں آمد و رفت رکھتا ہے اسے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک ایسا بھائی جو راہ خدا میں اس کا رفیق ہوتا ہے، جدید معلومات، خدا کی وہ رحمت جو اس کے انتظار میں ہوتی ہے، ایک ایسی نصیحت جو اسے ہلاکت سے نجات دلاتی ہے، ایسی بات جو اس کی ہدایت کا سبب بنتی ہے، گناہوں کا ترک کرنا۔‘‘[1] انقلاب سے پہلے بھی ابراہیم فجر کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھا کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت ہمیں شہید رجائی کی معروف جملے کی یاد دلاتی تھی: ’’نماز سے نہ کہو کہ مجھے کام ہے، بلکہ کام سے کہو کہ وقتِ نماز ہے۔‘‘ اس کی بہترین مثال اکھاڑے میں نماز جماعت کا اہتمام تھا۔ زور آزمائی اور ورزش کے دوران جیسے ہی اذان کا وقت ہوتا، وہ اپنی ورزش کو بند کر دیتا اور نماز جماعت قائم کرتا۔ کئی بار سفر کے دوران یا محاذ پر جب بھی اذان کا وقت ہوتا ابراہیم اذان کہتا اور گاڑی روک کر سب کو نماز باجماعت کی ترغیب دلاتا۔ اس کی میٹھی آواز اور دلنشین اذان سب کو اپنے اندر جذب کر لیتی۔ وہ پیغمبر اعظمﷺ کے اس نورانی کلام کا مصداق تھا: ’’خداوند عالم نے وعدہ فرما رکھا ہے کہ مؤذن اور اس شخص کو جو وضو کرے اور مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کرے، بغیر حساب و کتاب کے جنت میں لے جائے گا۔‘‘[2] اسی عرصے میں ابراہیم کی، مسجد میں متواتر آنے جانے والے کافی جوانوں سے آشنائی اورپھر دوستی ہوئی۔ جوانی کے زمانے میں اس نے اپنی لیے ایک عبا کا انتظام کر لیا تھا جسے وہ اکثر اوقات نماز میں پہنتا تھا۔
*****
1980 کا سال تھا۔ ایک رات بسیج[3] کا پروگرام آدھی رات تک طول پکڑ گیا۔ فجر کی اذان میں دو گھنٹے رہتے تھے کہ جوانوں کا سارا کام ختم ہو گیا۔ ابراہیم نے سب جوانوں کو اکٹھا کیا اور کردستان کے واقعات انہیں سنانے لگا۔ اس کے قصے دلچسپ بھی تھے اور مزاحیہ بھی۔ اس نے سارے جوانوں کو اذان فجر تک بیدار رکھا۔ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر وہ سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ابراہیم نے بسیج کے سربراہ سے کہا: ’’اگر یہ جوان اسی وقت چلے جاتے تو نہیں معلوم بے چارے نماز کے لیے اٹھ بھی پاتے یا نہیں۔ آپ لوگ بسیج کا کام یا تو جلدی ختم کر لیا کریں یا جوانوں کو فجر تک بیدار رکھیں تا کہ ان کی نماز قضا نہ ہو جائے۔‘‘
*****
دن کے وقت ابراہیم شوخ اور بذلہ سنج انسان دکھائی دیتا تھا اور بہت زیادہ عامیانہ گفتگو کیا کرتا تھا، لیکن راتوں میں عموماً وہ سحر سے پہلے بیدار ہو جاتا اور نماز شب ادا کرتا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ اس کی یہ عبادت مخفی ہی رہے۔ جیسے جیسے اس کی شہادت کے ایام نزدیک آتے جا رہے تھے اس کی سحر خیزی بھی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ گویا وہ جانتا تھا کہ احادیث میں شیعہ ہونے کی علامت سحری خیزی اور نماز شب کو قرار دیا گیا ہے۔ وہ دعائے کمیل، دعائے ندبہ اور دعائے توسل پوری پابندی اور باقاعدگی سے پڑھا کرتا تھا۔ ہر روز فجر کے بعد دعا و مناجات اور زیارات میں مشغول رہتا۔ روزانہ یا تو زیارت عاشورا مکمل پڑھتا یا اس کا فقط آخری سلام پڑھتا، مگر پڑھتا ضرور تھا۔ وہ ہمیشہ آیہ ’’و جعلنا۔۔۔‘‘ کا زمزمہ کرتا رہتا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا: ’’ابرام بھائی،یہ آیت تو دشمن کے مقابلے میں حفاظت کے لیے ہے۔ یہاں تو ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے!‘‘ اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: ’’کیا شیطان سے بڑا بھی کوئی دشمن ہے؟!‘‘
*****
ایک بار نماز کی اہمیت اور نوجوانوں کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی۔ ابراہیم نے کہا: ’’جس وقت میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میں کافی اداس اور پریشان تھا۔ پہلی رات کو جب سب مہمان چلے گئے تو میں نے خدا سے خفا ہوتے ہوئے نماز ہی نہیں پڑھی اور سو گیا۔ جیسے ہی آنکھ لگی تو خواب میں اپنے والد صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا اور غصے سے سیدھے میرے کمرے کی طرف لپکے۔ میرے سامنے کھڑے ہو کر کئی لمحوں تک میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر مجھے دیکھتے رہے۔ اسی وقت میں نیند سے اچھل پڑا۔ والد صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہہ دیا تھا۔نماز ابھی قضا نہیں ہوئی تھی۔ میں اٹھا اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگا۔‘‘
*****
دوسرے وہ امور جنہیں وہ بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا، ان میں ایک نماز جمعہ بھی تھی، اگرچہ جب نماز جمعہ کا باقاعدہ انعقاد ہونے لگا تو ابراہیم یا تو کردستان میں مصروف ہوتا تھا یا محاذوں پر رہتا تھا۔ وہ جب بھی تہران میں ہوتا تو نماز جمعہ میں حتماً شرکت کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’تم لوگ نہیں جانتے کہ نماز جمعہ کا کتنا ثواب اور کتنی برکتیں ہیں۔‘‘ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہر وہ قدم جو نماز جمعہ کی طرف اٹھے، خداوند کریم اس پر آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘[4]