شهید ابراهیم هادی

چور کے ساتھ سلوک

 

ہم کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے۔ گلی سے ایک آواز آئی تو ابراہیم نے جلدی جلدی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ایک شخص اس کے بہنوئی کی موٹرسائیکل لے کر بھاگنے ہی والا تھا۔ وہ زور سے چلّایا: ’’پکڑو اسے۔۔۔ چور۔۔۔ چور! ‘‘ اس کے بعد خود بھی جلدی سے بھاگتا ہوا دروازے کی طرف لپکا۔ محلے کے ایک لڑکے نے موٹر سائیکل کو لات مار دی تھی جس کی وجہ سے چور موٹرسائیکل سمیت زمین پر آ رہا تھا۔زمین پر پڑے لوہے کے ایک ٹکڑے سے چور کا ہاتھ کٹ گیا اور اس کا خون بہنے لگا۔ اس کے چہرے سے خوف اور اضطراب ٹپک رہا تھا۔  وہ درد سے کراہ رہا تھا کہ ابراہیم اس کے سر پر پہنچ گیا۔ اس نے  موٹر سائیکل اٹھائی  اور سٹارٹ کر کے کہنے لگا: ’’جلدی سے سوار ہو جاؤ۔‘‘ ابراہیم اسی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے کلینک میں لے گیا اور اس کے ہاتھ پر مرہم پٹی کروائی۔ اس کے بعد وہ دونوں مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد ابراہیم اس کے پاس بیٹھ گیا: ’’تم چوری کیوں کرتے ہو؟ حرام کی کمائی تو۔۔۔‘‘ چور جو درد کے مارے رو رہا تھا، کہنے لگا: ’’میں یہ سب باتیں جانتا ہوں۔ مگر کیا کروں۔ بے روزگار ہوں۔ بیوی بچوں والا ہوں۔ دوسرے شہر سے آیا ہوں۔ مجبور ہو کرآج چوری کرنا پڑی۔‘‘ ابراہیم کچھ سوچنے لگا۔ پھر اٹھ کر ایک نمازی کے پاس گیا اور اس سے بات کرنے لگا۔ پھر خوشی خوشی واپس آیا اور چور سے کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے۔ میں نے تمہارے لیے ایک مناسب کام پیدا کر لیا ہے۔ کل سے کام پر جاؤ۔ یہ پیسے بھی رکھ لو اور خدا سے بھی مدد طلب کرو۔ ہمیشہ حلال کی تلاش میں رہو۔ حرام مال، زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیتا ہے۔ حلال کی روزی کم بھی ہو تو برکت والی ہوتی ہے۔‘‘

 

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location