پیر 22 ستمبر 1980 کی صبح تھی۔ میں نے ابراہیم اور اس کے بھائی کو دیکھا کہ سامان کو کہیں منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے سلام کرنے کے بعد کہا: ’’آج سہ پہر کو قاسم کچھ سازو سامان سے بھری ایک گاڑی لے کُردستان جا رہا ہے۔ ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’خیریت ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ممکن ہے دوبارہ جھڑپیں شروع ہو جائیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو میں بھی آ جاؤں گا۔‘‘ اسی دن ظہر کے وقت عراقی جہازوں کے حملوں سے جنگ شروع ہو گئی۔ سڑک پر سارے لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سہ پہر 4 بجے ہم سڑک پر تھے۔ قاسم تشکری ضروری سازو سامان سے بھری جیپ[1]لیے آ گیا۔ علی خرّمدل بھی اس کے ساتھ تھا۔ میں بھی سوار ہو گیا۔ جب ہم چلنے لگے تو ابراہیم بھی آ گیا اور ہمارے ساتھ سوار ہو گیا۔ میں نے کہا: ’’ابراہیم بھائی، آپ سامان منتقل نہیں کر رہے تھے؟!‘‘ اس نے کہا: ’’سامان نئے گھر میں رکھ دیا اور میں آ گیا۔‘‘ جنگ کا دوسرا دن تھا۔ ہم بہت کٹھن حالات میں کئی کچے راستوں کو عبور کرتے ہوئے ظہر سے پہلے سرپل ذہاب پہنچے۔ کسی کو بھی اپنی آنکھوں دیکھے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوگ گروہ گروہ شہر سے فرار ہو رہے تھے۔ شہر کے اندر سے توپ کے گولوں اور دستی بموں کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں۔ ہم شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں۔ ایک درے سے ہم شہر کے داخلی دروازے میں داخل ہوئے۔ دور سے سپاہ کے جوان ہمیں نظر آئے جو ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’قاسم، جوان اشارہ کر رہے ہیں کہ جلدی آئیں۔‘‘ اچانک ابراہیم نے کہا: ’’وہاں دیکھو!‘‘ اس کے بعد اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ ٹیلے کے پیچھے سے عراقی ٹینک صاف نظر آ رہے تھے جو مسلسل گولہ باری کر رہے تھے۔ کچھ گولے ہماری گاڑی کی طرف بھی آئے مگر خدا کا شکر کہ ہم خیریت سے رہے۔ ہم نے درے کو عبور کیا۔ سپاہ کا ایک جوان آگے بڑھا اور کہا: ’’تم لوگ کون ہو؟! میں تمہیں مسلسل اشارہ کر رہا تھا کہ ادھر نہ آؤ مگر تم لوگ گاڑی کا ایکسیلیٹر دبائے ہی جا رہے تھے۔‘‘ قاسم نے پوچھا: ’’یہاں کیا حالات ہیں؟ کمانڈر کون ہے؟‘‘ اس مجاہد نے جواب دیا: آغا بروجردی شہر میں جوانوں کے ساتھ ہیں۔ آج صبح عراقیوں نے شہر کے اکثر حصے پر قبضہ کر لیا تھا، مگر ہمارے جوانوں کے حملوں نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ہم شہر میں داخل ہو گئے۔ ایک پُر امن جگہ پر گاڑی روکی۔ قاسم نے وہیں دو رکعت نماز پڑھی۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر حیرانی سے پوچھا: ’’قاسم! یہ کون سے نماز تھی؟‘‘ قاسم نے اطمینان سے جواب دیا: ’’کردستان میں ہمیشہ میں یہ دعا کرتا تھا کہ میں جب بھی اسلام کے دشمنوں سےجنگ کروں تو اسیر یا معذور نہ ہو جاؤں، لیکن اس دفعہ خدا سے دعا کی ہے کہ وہ مجھے شہادت نصیب فرمائے۔ اب دنیا کو برداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔‘‘ ابراہیم بہت دقت سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے بعد ہم محمد بروجردی کے پاس پہنچ گئے۔ وہ قاسم کو پہلے ہی سے جانتا تھا۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ تھوڑی دیر بات چیت کرنے کے بعد ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’مجاہدوں کی دو بٹالینز اس طرف گئی ہیں مگر ان کا کوئی کمانڈر نہیں ہے۔ قاسم جان، تم جاؤ، دیکھو تو تم انہیں شہر میں واپس لا سکتے ہو یا نہیں؟‘‘ ہم اکٹھے اس طرف چلے گئے۔ وہ جگہ مجاہدوں سے بھری ہوئی تھی۔ سارے مسلح اور تیار مگر بہت ڈرے ہوئے تھے۔ وہ عراق کی طرف سے اس شدید حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ قاسم اور ابراہیم آگے بڑھے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے ان سے ایسی باتیں کیں کہ ان میں جوش اور غیرت ٹھاٹھیں مارنے لگی۔ آخر میں انہوں نے کہا: ’’جو کوئی بھی مرد ہے، غیرتمند ہے اور نہیں چاہتا کہ ان بعثیوں کے ہاتھ اس کی عزت تک پہنچیں، وہ ہمارے ساتھ آئے۔‘‘ ان کی باتوں نے مجاہدوں میں ایک روح پھونک دی اور سبھی ان کے ساتھ چل پڑے۔ قاسم نے فوج کو ترتیب دیا اور ہم شہر میں داخل ہو گئے۔ داخل ہوتے ہی مورچہ بندی شروع کر دی۔ کچھ مجاہد کہنے لگے: ’’ہمارے پاس توپ 106 بھی موجود ہے۔‘‘ قاسم نے ایک انتہائی مناسب جگہ تلاش کرتے ہوئے انہیں دکھائی۔ وہ توپ کو وہاں لے گئے اور گولہ باری شروع کر دی۔ توپ کے چند گولے داغنے کے بعد عراقی ٹینک پیچھے کی طرف ہٹ گئے اور اپنے مورچوں میں واپس جا کر پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اس سے ہمارے جوانوں کا حوصلہ کافی بڑھ گیا۔ جنگ کا دوسرا روز ختم ہونے کے قریب تھا۔ قاسم نے ایک گھر کو ٹھکانہ بنا لیا جو جوانوں کے مورچے سے نزدیک تھا۔ پھر مجھے کہنے لگا: ’’جاؤ ابراہیم کو بلا لاؤ تا کہ ہم مل کر دعائے توسل پڑھیں۔‘‘ منگل کی رات تھی۔ میں چلا گیا اور قاسم نماز پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ میں ابھی زیادہ دور نہ گیا ہوں گا کہ ایک گولہ اسی گھر کے دروازے کے سامنے آ کر پھٹا۔ میں نے کہا: ’’خدا کا شکر کہ قاسم اندر کمرے میں چلا گیا تھا۔‘‘ میں واپس پلٹ آیا۔ ابراہیم نے گولے کی آواز سن لی تھی۔ وہ بھی جلدی سے ہمارے پاس آ گیا۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو جو منظر ہماری آنکھوں نے دیکھا تھا اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ مسور کے دانے جتنا بم کا ایک ٹکڑا کھڑکی سے ہوتا ہوا قاسم کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ قاسم نے نماز کی حالت میں اپنی آرزوئے شہادت کو پا لیا تھا۔ محمد بروجردی یہ خبر سن کر کافی رنجیدہ ہو گیا۔ اس رات ہم نے قاسم کے جسد کے پاس دعائے توسل پڑھی۔ اگلے دن اس کے جسد کو تہران روانہ کر دیا۔ اس سے اگلے دن ہم ہیڈ آفس چلے گئے۔ وہاں سے ہمیں حکم ملا: ’’اسلحے کے گودام کی حفاظت آپ کچھ جوانوں کےسپرد کی جا رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک سکول ہمارے حوالے کیا جو اسلحے سے تقریباً بھرا ہوا تھا۔ ہم ایک دن وہاں ٹھہرے لیکن چونکہ وہاں خطرہ زیادہ تھا اس لیے وہ سارا سامان شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا۔ ابراہیم مذاق سے کہتا تھا: ’’دوستو! یہاں خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرو کیونکہ اگر ایک گولہ بھی ادھر آ گیا تو ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔‘‘ جب گودام خالی ہو گیا تو ہم جنگ کی فرنٹ لائن پر چلے گئے۔ سرپل ذہاب کے مغربی حصے میں مورچے بنا دیے گئے تھے۔ اصغر وصالی اور علی قربانی جیسے چند تربیت یافتہ کماندڑز مجاہدوں کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ ’’پاوہ‘‘ کے علاقے میں ان کا گوریلا فوجیوں کا دستہ تھا جو ’’سرخ رومال گروپ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اب یہ لوگ انہی گوریلا فوجیوں کو اپنے ہمراہ لے کر سرپل کے علاقے میں آ گئے تھے۔ ہم نے شہر کا ایک دورہ کیا۔ محمد شاہرودی، مجید فریدوند اور کچھ دوسرے دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد ہم اکٹھے اس مقام پر چلے گئے جہاں عراقی فوجیوں سے چھڑپیں ہو رہی تھیں۔ ٹیلے کی بلندی پر واقع مورچے میں موجود کمانڈر نے ہمیں بتایا: ’’سامنے والا ٹیلا عراقی فوجیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا مقام ہے۔ اس سے آگے سارے ٹیلوں پر عراقی فوجی ہی قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔‘‘ کچھ لمحے گزرے تو دور سے ایک عراقی فوجی دکھائی دیا۔ سب فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ ابراہیم چلّا اٹھا: ’’تم لوگ کیا کر رہے ہو! ساری گولیاں ختم کر دیں۔‘‘ سب جوان خاموش ہو گئے۔ ابراہیم ایک عرصے تک کردستان میں رہا تھا اور اس نے اچھے طریقے سے فوجی تربیت لے رکھی تھی، کہنے لگا: ’’صبر کرو۔ جب دشمن تم سے زیادہ نزدیک ہو جائے تو پھر فائرنگ کرنا۔‘‘ اسی وقت عراقیوں نے ٹیلے کے نیچےسے فائرنگ شروع کر دی۔ آر پی جی سے نکلے ہوئے راکٹ اور توپ کے گولے مسلسل ہماری طرف فائر ہو رہے تھے۔ اس کے بعد عراقی ہمارے مورچوں کی طرف بڑھنے لگے۔ جن مجاہدین نے پہلی دفعہ اسلحہ اپنے ہاتھ میں لیا تھا وہ یہ منظر دیکھ کر پچھلے مورچوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم بہت ڈر گئے تھے۔ کمانڈر نے چلّا کر کہا: ’’صبر کرو۔ مت گھبراؤ۔‘‘ تھوڑی دیر عراقیوں کی طرف سے ہونے والی فائرنگ کی آواز کم ہو گئی۔ میں نے مورچے سے باہر دیکھا تو عراقی ہمارے مورچوں سے کافی نزدیک پہنچ گئے تھے۔ اچانک ابراہیم نے چند دوستوں کی مدد سے عراقیوں پر حملہ کر دیا۔ وہ لوگ مورچوں سے باہر کی طرف دوڑتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ کچھ دیر نہ گزری تھی کہ کئی عراقی مارے گئے اور کچھ زخمی ہو گئے۔ ابراہیم اور اس کے دوستوں نے گیارہ عراقیوں کو گرفتار کر لیا۔ باقی لوگ بھاگ گئے۔ ابراہیم نے جلدی سے انہیں شہر کی طرف روانہ کر دیا۔ ابراہیم کے اس جرأتمندانہ اقدام سے سب جوانوں کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ کچھ جوان مسلسل قیدیوں کی تصویریں اتار رہے تھے۔ کچھ ابراہیم کے ساتھ بھی یادگاری تصاویر بنوا رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہم سرپل شہر میں داخل ہو گئے۔ وہاں ہمیں اطلاع ملی کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے قاسم کا جسد ابھی تک بیرک ہی میں پڑا ہوا ہے۔ ہم وہاں سے چل دیے اور جنگ کے پانچویں روز قاسم کا جسد اپنی گاڑی میں لے کر تہران آ گئے۔ تہران میں اس کا جنازہ پوری شان و شوکت سے اٹھا اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والا دفاع مقدس کا پہلا شہید اس مقام پر دفن ہوا۔ جنازے پر لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ علی خرّمدل نعرے لگا رہا تھا: ’’اے میرے شہید سردار! تمہارا راستہ ابھی جاری ہے۔‘‘
[1]یہاں Wagoneer Jeepمراد ہے جسے ایران میں جیپ آہو (ہرن جیپ) کہا جاتا ہے۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.