تسبیحات
4 اکتوبر 1980 کا دن تھا۔ ابراہیم کا دو دن سے کچھ اتا پتا نہیں چل رہا تھا۔ میں اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے جنگی قیدیوں کے مرکز میں بھی گیا مگر وہاں سے بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ آدھی آدھی رات تک دل میں اضطراب رہتا کہ میں اپنے سب سے گہرے دوست کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ نماز فجر کے بعد صحن میں آیا تو ابوذر بیرک پر عجیب طرح کا سکوت چھایا ہوا تھا۔ میں صحن کی مٹی پر بیٹھ گیا۔ ابراہیم کے ساتھ گزرے ہوئے تمام واقعات و لمحات میرے ذہن میں گھومنےلگے۔ ابھی تک اجالا نہیں ہوا تھا۔ بیرک کا پھاٹک ایک آواز کے ساتھ کھلا اور کچھ لوگ اندر داخل ہوئے۔ بے اختیار میری نگاہیں بیرک کے پھاٹک کی طرف اٹھ گئیں۔ جھٹ پٹے میں سے نظر آنے والے اس کے چہرے پر میری نظریں جمی کی جمی رہ گئیں۔ میں اپنی جگہ سے خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ وہ ابراہیم ہی تھا۔ ان آنے والوں میں سے ایک ابراہیم تھا۔ میں دوڑ پڑا اور چند لمحوں بعد ہم ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے تھے۔ اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ کچھ دیر بعد ہم جوانوں کے بیچ بیٹھ گئے۔ ابراہیم ان تین دنوں کا ماجرا سنا رہا تھا: ’’ہم ایک بکتر بند گاڑی میں کافی آگے تک نکل گئے تھے۔ نہیں معلوم عراقی کہاں سے ٹپک پڑے۔ ایک ٹیلے کے پاس ہم ان کے محاصرے میں آ گئے۔ سو کے لگ بھگ عراقی ٹیلے کے اوپر اور میدان سے ہماری طرف گولیاں چلا رہے تھے۔ ہم پانچ لوگ تھے۔ ہم نے ایک ٹیلے کے پاس ایک گڑھا پایا تو اسے مورچہ بنا کر جوابی فائرنگ کرنے لگے۔ غروب تک ہم اپنا دفاع کرتے رہے۔ جیسے ہی اندھیرا چھا گیا تو عراقی بھی پیچھے ہٹ گئے۔ راستہ جاننے والے دو آدمی جو ہمارے ساتھ تھے وہ شہید ہو چکے تھے۔ ہم مورچے سے باہر آئے۔ وہاں اردگرد کوئی نہ تھا۔ ہم اس ٹیلے کے پیچھے درختوں میں چلے گئے۔ وہاں شہداء کے جسد دفنائے۔ تھکاوٹ اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا۔ غروب آفتاب کی سمت کو دیکھ کر ہم نے قبلہ مشخص کیا اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لیے تسبیحات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پورے خضوع و خشوع سے پڑھیں۔ اس کے بعد میں نے انہیں مزید بتایا کہ یہ تسبیحات پیغمبر اکرمﷺ نے اس وقت اپنی بیٹی کو تعلیم فرمائی تھیں جب وہ بہت زیادہ مشکلات اور سختیوں کا شکار تھیں۔ تسبیحات پڑھنے کے بعد ہم دوبارہ اسی مورچے میں واپس آ گئے۔ عراقیوں کا کچھ پتا نہ تھا۔ ہمارا اسلحہ بھی کم رہ گیا تھا۔ اچانک ٹیلے کے پاس کچھ عراقیوں کی لاشوں پر میری نظر پڑ گئی۔ ہم نے ان کا اسلحہ، میگزینیں اور دستی بم اٹھا لیے۔ کچھ کھانے کا سامان بھی مل گیا۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ لیکن کس سمت کو جا رہے تھے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ اندھیرا چھا چکا تھا اور ہمارے اردگرد صاف میدان تھا۔ میرے ہاتھ میں تسبیح تھی اور میں مسلسل تسبیح پڑھے جا رہا تھا۔ دشمنوں کی طرف سے محاصرہ، تھکاوٹ، تیرہ و تار رات، ان سب کے باوجود میرے دل کو عجیب سا اطمینان مل رہا تھا۔ آدھی رات کو کھلے میدان میں ہمیں ایک کچا راستہ مل گیا۔ ہم اس پر چل پڑے۔ ہم ایک فوجی چھاؤنی میں پہنچ گئے جہاں ریڈار نصب تھا۔ اس کے پاس کچھ سکیورٹی گارڈز بھی کھڑے تھے۔ اس چھاؤنی میں کچھ مورچےبھی نظر آ رہے تھے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کہاں ہیں۔ہمیں اپنے زندہ رہنے کی ذرہ برابر امید بھی نہیں رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ تسبیح کے بعد میں نے استخارہ بھی کیا جو اچھا آ گیا۔ ہم اپنا کام شروع ہو گئے۔ خدا کی مدد سے ہم دستی بموں اور فائرنگ کے ذریعے اس چھاؤنی کی اینٹ سےاینٹ بجا سکتے تھے۔ جب ریڈار نے کام کرنا چھوڑ دیا تو ہم اس کے پاس سے ہٹ گئے۔ گھنٹہ بھر بعد ہم دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑے۔ صبح کے وقت ایک پُرامن جگہ ہمیں مل گئی اور ہم آرام کرنے لگے۔ ہم نے سارا دن استراحت کی۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ ہمیں ایک عجیب قسم کا اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ رات جیسے ہی گہری ہوئی ہم نے دوبارہ اپنا راستہ ناپا اور اللہ کی مدد سے اپنے فوجی جوانوں کے پاس پہنچ ہی گئے۔‘‘ ابراہیم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’جو کچھ ہم نے اس عرصے میں دیکھا وہ فقط خدا کی عنایات تھیں۔ تسبیح زہرا سلام اللہ علیہا نے ہماری بہت سےمشکلات حل کر دیں۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’دشمن اپنے ایمان کی کمزوری کے باعث ہماری فوج سے بہت ڈرتا ہے۔جہاں تک ہو سکتا ہے ہمیں غیر منظم حملوں میں وسعت لانی چاہیے تاکہ دشمن کی طرف سے ہونے والے حملوں کا سدّباب کیا جا سکے۔‘‘