المہدی کالونی
جنگ شر وع ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ابراہیم، حاج حسین اور کچھ دوسرے رفقاء سرپل ذہاب کے اطراف میں واقع المہدی کالونی کی طرف چلے گئے اور وہاں جا کر دشمن کے مقابل پہلی مرتبہ طیارہ شکن مورچے بنائے۔ نماز فجر سے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ سب جوان ابراہیم کو تلاش کر رہے ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘کہنے لگے: ’’آدھی رات کے بعد سے ابراہیم کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔‘‘ میں بھی ان کے ساتھ مورچوں اور نگہبانی والی جگہوں پر جا کر ابراہیم کو ڈھونڈنے لگا مگر اس کا کچھ پتا نہ چلا۔ کوئی گھنٹہ بھر گزرا ہو گا کہ نگہبانی پر مامور ایک جوان نےبتایا: ’’نالے کے راستے سے کچھ لوگ اس طرف آ رہے ہیں۔‘‘ اس نالے کا رُخ دشمن کی طرف تھا۔ میں فوراً نگہبانی والے مورچے کی طرف چلا گیا اور جوانوں کے ساتھ مل کر آنے والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ 13 عراقی فوجی بندھے ہاتھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہماری طرف آ رہے تھے۔ ان کے پیچھے ابراہیم اور ایک دوسرا جوان تھے۔ ان دونوں نے بہت سا اسلحہ، دستی بم اور میگزینیں بھی اٹھا رکھی تھیں۔ کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ابراہیم ایک دوست کے ساتھ مل کر اتنا بڑا معرکہ مار لے گا اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب کہ المدی کالونی میں اسلحے کی کمی بھی تھی حتی کہ کچھ مجاہدین کے پاس سرے سے اسلحہ تھا ہی نہیں۔ ہمارا ایک جوان کافی جوش میں آ گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر پہلے عراقی قیدی کے چہرے پر زور سے تھپڑ دے مارا اور کہا: ’’عراقی، [امریکہ کا] پِٹھو۔‘‘ سب ایک لمحے کے لیے تو ہکابکا رہ گئے۔ ابراہیم قیدیوں کے پاس سے ہٹ کر اس جوان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک ایک کر کے اپنا اسلحہ اتارا اور چلّا کر اس جوان سے کہا: ’’تم نے اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا؟!‘‘ جوان شدید حیران رہ گیا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟ یہ ہمارا دشمن ہے۔‘‘ ابراہیم نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے کہا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمارے دشمن تھے لیکن اب ہمارے قیدی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ لوگ اصلاً نہیں جانتے کہ ہم سے کیوں لڑ رہے ہیں۔ اب تم ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہتے ہو؟‘‘ وہ جوان تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا: ’’مجھے معاف کر دیں۔ میں ذرا جوش میں آ گیا تھا۔‘‘ اس کے بعد اس نے پلٹ کر عراقی قیدی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس سے اپنے رویے کی معافی مانگی۔ عراقی قیدی جو حیرت سے ہماری حرکتیں دیکھ رہا تھا، ابراہیم کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس قیدی کی حیران آنکھوں میں کہنے کا بہت کچھ تھا۔
*****
جنگ شروع ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ ابراہیم چھٹی پر گھر آیا تو ہم کچھ دوست اس سے ملنے اس کے گھر گئے۔ اس ملاقات میں ابراہیم جنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات بیان کر رہا تھا، لیکن اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ ہوتے ہوتے مجاہدین کی نماز و عبادت پر گفتگو پہنچی تو ابراہیم اچانک ہنس پڑااور کہنے لگا: ’’المہدی کالونی میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں پانچ جوان ہمارے ساتھ آ کر شامل ہوئے۔ وہ ایک گاؤں سے اکٹھے ہی محاذ پر پہنچے تھے۔ کچھ دن گزرے تو میں نے دیکھا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے۔ میں نے ایک دن ان سے بات کی۔ وہ بےچارے بہت ہی سادہ لوح انسان تھے۔ نہ تو پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی انہیں نماز آتی تھی فقط امام [خمینیؒ] سے محبت کی وجہ سے محاذ پر آ گئے تھے۔ دوسری طرف انہیں خود بھی نماز سیکھنے کا شوق تھا۔ میں نے جب انہیں وضو سکھا دیا تو ایک جوان کو بلایا اور ان دوستوں سے کہا: ’’یہ صاحب تمہارے پیش نماز ہیں۔ جو کچھ یہ کریں گے آپ بھی انجام دیں۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو کر نماز کے اذکار کو بلند آواز سے باربار پڑھوں گا تاکہ آپ کو اچھی طرح نماز یاد ہو جائے۔‘‘ یہاں تک پہنچ کر ابراہیم اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ کچھ دیر بعد بولا: ’’پہلی رکعت میں الحمد پڑھتے ہوئے امام جماعت نے اپنے سر میں خارش کرنا شروع کر دی۔ میں نے دیکھا تو وہ پانچوں بھی اپنے سر میں خارش کر رہے تھے۔ مجھے بہت ہنسی آئی مگر میں نے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ لیکن جب امام جماعت نے سجدے سے سر اٹھایا تو سجدہ گاہ اس کی پیشانی سے چپک گئی اور پھر گر گئی۔ امام جماعت جیسے ہی سجدہ گاہ اٹھانے کے لیے بائیں طرف جھکا تو وہ پانچوں بھی بائیں طرف جھک گئے اور اپنے ہاتھ بڑھا لیے۔ یہ دیکھنا تھا کہ مجھے اپنی ہنسی پر قابو نہ رہا اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔‘‘