شهید ابراهیم هادی

سادگی

 

جنگ کے ابتدائی دنوں میں ابراہیم بہت سے فوجی جوانوں کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ بہت سے جوان اس کی دوستی پر فخر کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ایسا رویہ رکھتا تھا کہ سب سے کمتر دکھائی دے، مثلاً وہ عام طور پر اپنی وردی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ عموماً کُردی شلوار اور لمبی قمیص پہنے رکھتا تا کہ ایک تو مقامی لوگوں میں گھل مل سکے اور دوسرے اپنے نفس پر قابو رکھ سکے۔ وہ سادہ اور صاف ستھرا رہتا تھا۔ جب ہم نے اسے پہلی بار دیکھا تو یہی سمجھے کہ یہ فوجی جوانوں کا خدمتگار ہے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اس کی شخصیت کھل کر ہمارے سامنے آ گئی۔ ابراہیم کا مزاج ہمیشہ سے روایتی انداز سے ہٹ کر تھا۔  وہ اپنی ظاہری شکل و صورت کی طرف توجہ دینے کی بجائے زیادہ تر باطن کی فکر میں رہا کرتا تھا۔ دوسرے جوان بھی اس کی پیروی کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتاتھا: ’’جوانوں کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور یونیفارم کی نسبت زیادہ ضروری یہ ہےکہ ہم ان کی روحانی اور معنوی تعلیم و تربیت پر دھیان دیں  اور جہاں تک ممکن ہو اپنے جوانوں کے دوست بن کر رہیں۔‘‘ اسی فکر کا نتیجہ اس گروپ کے حملوں میں نظر آتا تھا ، ہرچند کہ بعض جوانوں کے ابراہیم سے اختلافات بھی ہو جایا کرتے تھا۔

*****

ابراہیم نے چیتا پرنٹ والا ایک کپڑا خریدا اور ایک درزی کو دیتے ہوئے کہا: ’’کُردی لباس کا ایک جوڑا میرے لیے سی دو۔‘‘ اگلے دن اس نے درزی سے لباس لے کر پہن لیا۔وہ ان کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔  انہی کپڑوں میں وہ چھاؤنی سے باہر نکل گیا۔گھنٹہ بھر گزرا ہو گاکہ فوجی وردی میں واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’تمہارے کپڑے کہاں ہیں؟‘‘ کہنے لگا: ’’ایک کُرد جوان کو میرے کپڑے بہت پسند آ گئے تو میں نے اسے تحفے میں دے دیے۔‘‘ اس نے اپنی گھڑی بھی ایک شخص کو دے دی تھی۔ اس شخص نے ابراہیم سے وقت پوچھا تھا لیکن ابراہیم نے اسے گھڑی ہی اتار کر دے دی تھی۔ اس طرح کے سادہ سے کام اس بات کا باعث بنے کہ مقامی کُرد افراد ابراہیم کے دلدادہ ہو کر شہید اندرزگو گروپ میں شامل ہو گئے۔ ابراہیم اپنی مکمل سادہ زیستی کے باوجود بھی سیاسی مسائل سے مکمل آگاہی رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی امور کا تجزیہ بھی بہت ہی اچھے انداز میں کیا کرتا تھا۔ کیمپ میں امام خمینیؒ اور شہید بہشتیؒ کی تصویریں لگانے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے مغربی دفتر، جو براہِ راست بنی صدر[1] کے تحت کام کرتا تھا، نے شہید اندرزگو گروپ کو ختم کرنے اور ان کا کھانا پینا روک دینے کا حکم صادر کر دیا۔ لیکن مغربی علاقے کے کمانڈر نے اس علاقے میں اس گروپ کی موجودگی کو ضروری قرار دے دیا اور کہا کہ ہمارے سارے حملوں کی منصوبہ بندی اور اجراء یہی گروپ تو کرتا ہے۔ کچھ عرصے تک اسی کمانڈر کی تگ و دو سے یہ پابندی ختم ہو گئی۔ ایک روز اعلان کیا گیا کہ بنی صدر کرمانشاہ کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ابراہیم، جواد اور کچھ دوسرے جوانوں کو ساتھ لے کر حاج حسین کے ہمراہ کرمانشاہ چلا گیا۔ فوجی افسران بن ٹھن کر بنی صدر کے منتظر تھے، لیکن اندرزگو گروپ کے جوانوں کا حلیہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ وہ اسی سادہ انداز میں روزمرہ استعمال ہونے والے کُردی لباس میں بنی صدر کے استقبال کو چلے گئے۔ ہرچند کہ ان کا مقصد کوئی اور تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس شخص سےمل کر اور بات چیت کر کے دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح کے فوجی نظریے کے تحت جنگ کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس دن ہم کافی خوار ہوئے۔ انتظار کرتے کرتے آخر میں اعلان کر دیا گیا کہ فنی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کرمانشاہ نہیں آ سکے گا۔ کچھ عرصے بعد آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ کرمانشاہ آئے۔ ان دنوں وہ تہران کے امام جمعہ تھے۔ ابراہیم سارے جوانوں کو اپنے ساتھ لے آیا۔ انہوں نے اسی طرح سادہ حلیے کے ساتھ رہبر معظم سے ملاقات کی اور اس کے بعد ایک ایک کر کے  سب ان کے گلے ملے اور ان کے چہرے پر بوسہ دیا۔

 

[1]ایران کا پہلا جمہوری صدر جو حکومت بنانے کے کچھ ہی عرصہ بعد منافقین سے جا ملا۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location