شهید ابراهیم هادی

چم امام حسنؑ( ع )

 

دشمن کے ٹھکانوں پر بھرپور حملے کرنے کے لیے ہم تیار ہو چکے تھے۔ابراہیم، جواد افراسیابی، رضا دستوارہ، رضا چراغی اور چار دوسرے اشخاص اس کام کے لیے منتخب ہوئے۔بعد میں مقامی کُرد قبیلے کے دو افراد  بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ وہ راستوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ہم نے ایک ہفتے کا آذوقہ اپنے ساتھ لے لیا جو زیادہ تر روٹی اور کجھور پر مشتمل تھا۔ کافی مقدار میں اسلحہ، بارود اور بارودی سرنگوں کا سامان بھی ہم نے اپنے بیگوں میں بھر لیا اور چل پڑے۔ بلند چوٹیوں  اور دریائے امام حسنؑ کو عبور کرتے ہوئے ہم چمِ امام حسنؑ پہنچ گئے۔ وہاں عراقی فوج کی پوری ایک بریگیڈ پڑاؤ ڈالے ہوئی تھی۔  ہم آس پاس کے نالوں میں اور ٹیلوں کے پیچھے چھپ گئے۔ دشمن سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایرانی فوج کے جوان ان بلندیوں کو عبور کر سکیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم انتہائی پرسکون ہو کر نقشے بنانے میں جُت گئے۔ ہم تین دن تک وہاں رہے۔اگرچہ تیز بارش نے ہمارے کام کی رفتار تھوڑی دھیمی کر دی تھی مگر دوستوں کی ہمت اور محنت کی وجہ سے ہم نے اس علاقے کے انتہائی دقیق نقشے تیار کر لیے۔ ریکی اور نقشے بنانے کے کام سےفارغ ہونے کے بعد ہم فوجی راستے کی کھوج میں نکل کھڑے ہو گئے۔ ہم نے کچھ بارودی سرنگیں وہاں نصب کیں۔ اس کے بعد جلدی سے اپنی فوج میں واپس آ گئے۔ ابھی زیادہ دور نہ ہوئے تھے کہ کچھ دھماکوں کی آواز سنائی دی۔ ہم نے دیکھا کہ دشمن کی کاریں اور بکتر بند گاڑیاں آگ میں جل رہی تھیں۔ ہم جلدی سے اس خطرے والی جگہ سے دور ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ دشمن کی ٹینک پیادہ فوجیوں کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہیں۔ ہم نالوں کے اندر سے گزرتے اور ٹیلوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے دریائے امام حسنؑ تک پہنچ گئے۔ ہمارے دریا عبور کر جانے کے بعد ٹینک ہمارا تعاقب جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ دریا سے نکل کر ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ لی اور وہاں آرام کرنے لگے۔ کچھ منٹ گزرے تو دور سے ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔ اس کا تو ہم نے سوچا ہی نہ تھا۔ ابراہیم نے جلدی سے نقشے ایک بیگ میں ڈالے اور رضا کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’میں اور جواد یہیں رہیں گے۔ تم جلدی سے یہاں سے نکلو۔‘‘ اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے اضافی میگزینیں اور کچھ دستی بم بھی انہیں تھما دیے اور غم و اندوہ کی حالت میں ان سے جدا ہو کر چل پڑے۔ اس مشن کا اصل مقصد ان نقشوں کا حصول تھا۔ ان نقشوں نے بعد میں ہونے والی مہمات کی کامیابی میں بہت زیادہ کردار ادا کرنا تھا۔ ہم نے دور سےدیکھا کہ ابراہیم اور جواد مسلسل اپنی جگہ تبدیل کر  رہے تھے اور اپنی جی ۳ کے ساتھ ہیلی کاپٹر کی طرف گولیاں برسا رہے تھے۔ عراقی ہیلی کاپٹر بھی موڑ کاٹ کاٹ کر ان کی طرف بمباری کر رہا تھا۔ دو گھنٹے بعد ہم چوٹیوں پر پہنچ گئے۔ اب کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ایک جوان جو ابراہیم سے بہت محبت رکھتا تھا، رو رہا تھا۔ ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی۔ نہیں جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔ مجھے یاد آ گیا کہ کل جب ہم نالوں میں چھپے ہوئے تھے تو  ابراہیم پُر سکون انداز میں مقابلہ کرنے اور کھیلنے لگا۔ اس کے بعد وہ اپنے گروپ کے کُردی جوانوں کو فارسی زبان سکھاتا رہا۔ اس کا لہجہ اتنا پر سکون تھا کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ ہم دشمنوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ جب نماز کا وقت ہوا تو وہ بلند آواز میں اذان دینا چاہتا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرار پر اس نے بہت ہی آہستہ آواز میں اذان کہی۔ اس کے بعد ایک خاص روحانی کیفیت لیے نماز میں مشغول ہو گیا۔ اس وقت ابراہیم میں ایسی شجاعت اور بہادری دکھائی دے رہی تھی کہ سبھی ساتھیوں کے دلوں سے ڈر ختم ہو گیا۔ اب رات ہو چکی تھی۔ ابراہیم کو دیکھے کافی وقت ہو چکا تھا۔ ہم اپنے معین کردہ مقام پر پہنچ گئے۔ابراہیم اور جواد کے ساتھ طے پایا تھا کہ وہ روشنی ہونے سے پہلے پہلے اس جگہ پر پہنچ جائیں۔ کچھ گھنٹے ہم نے آرام کیا لیکن ان کی کوئی خبر نہ آئی۔ فضا میں تھوڑی تھوڑی روشنی پھیلنے لگی تھی لیکن ہمیں اس جگہ سے نکلنا تھا۔ ہمارے ساتھی مسلسل ذکر و دعا میں مصروف تھے۔ ہم چلنے ہی والے تھے کہ دور سے ایک آواز سنائی دی۔ ہم نے اپنے ہتھیار سنبھال لیے اور بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد آوازوں سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ابراہیم اور جواد ہیں۔ سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ ہم تازہ دم ساتھیوں کےساتھ ان کی مدد کو لپکے۔ اس کے بعد جلدی جلدی ہم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا۔ اس مہم میں تیار ہونے والے نقشوں نے بعد کی مہموں میں بہت زیادہ بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ مہم ابراہیم اور اس کے گروہ کے بہادر جوانوں کی ہمت و شجاعت کے بغیر سر ہونے والی نہیں تھی۔ اگلے دن ظہر کے وقت ابراہیم اور جواد ہمیشہ کی طرح تروتازہ اور بھرپور انداز میں اپنے جوانوں کے بیچ موجود تھے۔ میں رضا کو ساتھ لیے ابراہیم کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا: ’’بھائی ابرام، کل جب ہیلی کاپٹر پہنچا تو اس وقت تم نے کیا کیا تھا؟‘‘ اس نے ہمیشہ کی طرح سکون سے جواب دیا: ’’خدا نے مدد کی۔ میں اور جواد ایک دوسرے سے دور ہو کر اپنی جگہ بار بار تبدیل کرتے رہے اور ہیلی کاپٹر کی طرف گولیاں برساتے رہے۔ ہیلی کاپٹر بھی بار بار چکر کاٹ کر ہماری طرف بمباری کرتا رہا۔  جب اس کے تمام گولے ختم ہو گئے تو وہ واپس چلا گیا۔ ہم بھی عراقی پیادہ فوجیوں کے آنے سے پہلے پہلے جلدی جلدی چوٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ البتہ کچھ چھرے ہمیں ضرور لگے تا کہ یادگار رہ جائیں۔‘‘

 

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location