شهید ابراهیم هادی

نیمۂ شعبان

 

پندرہ شعبان کے دن عصر کے وقت ابراہیم چھاؤنی  میں  داخل ہوا۔ گذشتہ آدھی رات سے وہ غائب تھا۔ اب جب کہ آیا تھا تو ایک عراقی قیدی کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’آغا ابرام، کہاں تھے تم؟ اور یہ قیدی کون ہے؟!‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں آدھی رات کو دشمن کی طرف چلا گیا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک جگہ جا کر چھپ گیا اور وہاں سے گزرنے والی عراقی گاڑیوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ جب سڑک خالی ہو گئی تو دیکھاکہ ایک عراقی جیپ، جس میں ایک آدمی سوار تھا، میری طرف آ رہی تھی۔  میں جلدی سے سڑک کے درمیان جا پہنچا اور عراقی افسر کو گرفتار کر کے واپس آ گیا۔ راستے میں میں نے سوچا کہ یہ بھی ہماری طرف سےا مام زمانہ عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو ہدیہ ہے لیکن پھر میں اپنے اس خیال پر پشیمان ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ ہم کہاں اور امام زمانہ عج کو دیا جانے والا تحفہ کہاں۔‘‘ اس روز ہم سب اکٹھے ہو کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ہر موضوع پر باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ایک جوان ابراہیم سے پوچھنے لگا: ’’آپ کی نظر میں محاذ پر لڑنے والے کمانڈرز میں سے سب سے بہترین کون سا ہے اور کیوں؟‘‘ ابراہیم نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا: ’’سپاہ کے جوانوں میں سے میں محمد بروجردی جیسا کسی کو بھی نہیں سمجھتا۔ محمد نے ایسا کام کیا ہے کہ کوئی اور اسے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔کردستان میں ڈھیروں مشکلات کے باوجود بھی  اس نے کُرد مسلمانوں کا ایک فدائی گروہ تیار کر لیا اور اسی کے ذریعے کردستان میں امن و امان بحال کر دیا۔ فوج کے افسروں میں سے میجر علی صیاد شیرازی جیسا کوئی نہیں ہے، کیونکہ وہ رضاکار فوجیوں سے بھی زیادہ سادہ انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ آغا صیاد فوجی بعد میں ہیں اور ایک حزب اللہی اور مومن جوان پہلے ہیں۔ فضائیہ کے افسران میں سے جتنا چاہو تلاش کر لو کیپٹن شیرودی سے زیادہ کوئی قابل نظر نہیں آ ئے گا۔ کیپٹن شیرودی نے سرپل ذہاب کے علاقے میں اپنے ہیلی کاپٹر سے کئی عراقی حملوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا تھا۔اگرچہ وہ ایئر بیس کمانڈر کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں مگر پھر بھی اتنی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں کہ آپ کو تعجب ہو گا۔میں جب محکمہ کھیل و ورزش میں تھا تو کچھ جوڑے ورزشی جوتوں کے لے آیا تھا جن میں سے ایک شیرودی کو  دیا تھا۔ ایئربیس کمانڈر ہونے کے باوجود بھی ان کے پاس مناسب جوتے نہ تھے۔‘‘ باتوں باتوں میں  بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر کوئی اپنی اپنی خواہش بیان کرنے لگا۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیان کر رہا تھا البتہ اکثر جوانوں کی آرزو شہادت ہی تھی۔ ابوالفضل کاظمی کی طرح کے بعض دوست مذاق میں کہتے تھے: ’’خدا نیک اور اچھے بندوں کو ہم سے جدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلسل گناہ کرتے رہتے ہیں تا کہ فرشتوں کی توجہ ہماری طرف نہ ہو۔ ہم ابھی زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘ سب جوان اس کی باتوں سے ہنسنے لگے۔ اس کے بعد ابراہیم کی باری آ گئی۔ سب ابراہیم کی آرزو جاننے  کے منتظر تھے۔ ابراہیم نے تھوری دیر سکوت کے بعد کہا: ’’میری آرزو بھی شہادت ہی ہے مگر ابھی نہیں۔ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ میں اسرائیل سے لڑتےہوئے شہید ہوں۔‘‘

******

میں علی الصبح خفیہ مورچوں سے گیلان غرب کی طرف لوٹ آیا تھا۔ چھاؤنی میں داخل ہوا تو خلاف معمول وہاں کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر وہاں ٹہلتا رہا مگر بے سود۔میں ڈر گیا کہ کہیں عراقیوں نے شہر پر قبضہ ہی نہ کر لیا ہو۔ میں نے صحن میں کھڑے ہو کر بلند آواز میں پکارا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ایک کمرے کا دروازہ کھلا تو ایک جوان نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو سب لوگ کمرے میں روبہ قبلہ بیٹھے خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ابراہیم اکیلا ساتھ والے کمرے میں بیٹھا سوزناک آواز میں کوئی نوحہ پڑھ رہا تھا۔  وہ اپنے لیے پڑھ رہا تھا۔ امام زمانہ عج سے مناجات کر رہا تھا۔ اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ وہاں بیٹھے سبھی افراد آنسو بہا رہے تھے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location