شهید ابراهیم هادی

دوست

 

وہ بہت پریشان تھا۔ بے چینی اس کے چہرے سے چھلک ہی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ ابراہیم نے بے قراری سے جواب دیا: ’’کل رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریکی کے لیے گیا تھا۔ واپسی پر دشمن کے ٹھکانوں کے بالکل پاس ہی ماشاء اللہ عزیزی[1] بارودی سرنگ سے ٹکرا کر شہید ہو گیا۔ عراقی  فوجیوں نے گولیاں برسانا شروع کر دیں اس لیے ہمیں مجبوراً وہاں سے واپس پلٹنا پڑا۔‘‘ اب مجھے اس کی بے چینی کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔ اندھیرا پھیلا تو ابراہیم چلا گیا۔ آدھی رات کے وقت وہ واپس آگیا۔ اس وقت وہ بہت خوش تھا۔ وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا: ’’نرس۔۔۔ نرس۔۔۔ جلدی سے آؤ، دیکھو ماشاء اللہ زندہ ہے!‘‘ ہمارے سب ساتھی بہت ہی خوش تھے۔ ہم نے ماشاء اللہ کو ایمبولینس میں بٹھایا، لیکن ابراہیم کونے میں بیٹھا کسی سوچ میں غرق تھا۔  میں اس کے پاس بیٹھ گیااور حیرت سے پوچھا: ’’تم کیا سوچ رہے ہو؟!‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہنے لگا: ’’ماشاء اللہ عراقی مورچوں کے پاس میدان کے درمیان میں سرنگ میں پھنسا تھا لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ وہاں نہیں تھا۔ وہاں سے تھوڑا پیچھے میں نے اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ دشمن کی نظروں سے دور ایک پُر امن جگہہ پر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔‘‘

*****

میرے پاؤں سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ میں بے حال ہو گیا تھا۔ مگر عراقی مطمئن تھے کہ میں زندہ نہیں ہوں۔میری حالت عجیب ہو گئی تھی۔ میں زیر لب فقط یہی کہہ رہاتھا: ’’یا صاحب الزمان ّ(عج) ادرکنی۔‘‘ اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ ایک خوبصورت اور نورانی جوان میرے سرہانے آیا۔ میں نے بہت ہی مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس جوان نے آہستہ سےمجھے اٹھایا۔ میں سرنگوں والے میدان میں پھنس گیا تھا۔ پھر اس کے بعد اس نے آہستہ اور آرام سے مجھے ایک پُرامن جگہ پر لٹا دیا۔ مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ شخص مجھ سے کافی دیر باتیں کرتا رہا۔ اس کے بعد کہا: ’’کوئی آئے گا اور تمہیں یہاں سے نجات دلائے گا۔ وہ ہمارا دوست ہے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ابراہیم آ گیا۔ اس نے اسی مضبوطی کے ساتھ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا جو ہمیشہ سے اس کا خاصہ رہی ہے۔ ہم چل پڑے۔ اس خوبصورت چہرے والے جوان نے ابراہیم کو اپنا دوست کہا تھا۔ کتنا خوش قسمت ہے ابراہیم۔ ماشاء اللہ نے گیلان غرب کے محاذ پر پیش آنے والے واقعات کو ایک ڈائری میں لکھ رکھا تھا۔ یہ واقعہ بھی اس نے اسی ڈائری میں رقم کیا تھا۔

*****

ماشاء اللہ کئی سال تک محاذ پر مصروف پیکار رہے۔ وہ گیلان غرب کے متقی اور مخلص اساتذہ میں سے تھے اور جنگ کے آغاز سے انجام تک محاذوں پر اور مختلف حملوں میں پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ موجود رہے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔

 

[1]سرفروش جانباز ماشاء اللہ عزیزی گیلان  غرب کے مخلص اور متقی استاد تھے۔ ان کی جانبازی کی تفصیل ادارہ گروہ شہید ہادی کی طرف سے چھپنے والی کتاب ’’وصال‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location