میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ مغربی محاذ پر ایک حملے کے دوران زخمی ہو گیا تھا۔اس کے پاؤں پر کافی گہرے زخم آئے تھے۔ وہ مجھے دیکھتےہی خوش ہو گیا اور میرا شکریہ ادا کرنے لگا، لیکن میں اس کے شکریہ ادا کرنے کی وجہ نہ سمجھ سکا۔ میرے دوست نے کہا: ’’سید جان، تم نے بہت زحمت کی۔ اگر تم مجھے اٹھا کر پیچھے کی طرف نہ لے آتے تو میں حتماً اسیر ہو جاتا۔‘‘ میں نے کہا: ’’تمہیں کچھ پتا بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں تو سب سے پہلے چیپ پر بیٹھ کر پیچھے کی طرف لوٹ آیا تھا اور چھٹی لے کر گھر آ گیا تھا۔‘‘ میرا دوست حیرت سے کہنے لگا: ’’نہیں یار،وہ تمہی تو تھے۔ تمہی نے میری مدد کی اور میرے پاؤں کے زخم کو باندھا تھا۔‘‘ لیکن میں نے جتنا انکار کیا، وہ نہ مانا۔ کچھ وقت گزرا تو میں نے ایک بار پھر اپنے اس دوست کی باتوں پر غور کیا۔ اچانک میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ میں بھاگا بھاگا ابراہیم کی طرف چلا گیا۔ وہ بھی اس حملے میں شامل تھا اور چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ اسے ساتھ لے کر پھر اس دوست کے گھر چلا گیا۔ میں نے اسے کہا: ’’جس کا تمہیں شکریہ ادا کرنا چاہیے وہ ابراہیم ہے، میں نہیں ہوں۔ کیونکہ مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس پہاڑ پر آٹھ کلومیٹر تک کسی کو اٹھا کر چلوں اور اسے دشمن کے علاقے سے نکال کر واپس لے آؤں۔لہٰذا میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے!‘‘ ایک ایسا شخص جو کم گو ہو، میرے جیسی جسامت کا مالک ہو، بہت زیادہ جسمانی قوت سے لبریز ہو اور مجھے جانتا بھی ہو۔ میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ ابراہیم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا! لیکن ابراہیم کچھ بتاتا ہی نہیں تھا۔ میں نے کہا: ’’آغا ابرام، مجھے اپنے دادا کی قسم، اگر تم نے کوئی بات نہ کی تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا۔‘‘ لیکن ابراہیم میری اس حرکت سے کافی غصے میں تھا۔کہنے لگا: ’’سید، کیا بتاؤں؟‘‘ اس کے بعد خاموش ہو گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگا: ’’میں خالی ہاتھ پیچھے کی طرف واپس پلٹ رہا تھا۔ یہ ایک جگہ پڑے ہوئے تھے۔ میرے تعاقب میں بھی کوئی نہ تھا کیونکہ میں تقریباً آخری نفر تھا جو واپس پلٹ رہا تھا۔ اس تاریکی میں نے اپنے بوٹوں کے تسموں کے ساتھ ان کے پاؤں سے بہنے والے خون کو بند کیا۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ راستے میں یہ مجھے سید سید کہہ کر باتیں کرتے جا رہے تھے۔ میں بھی سمجھ گیا کہ تمہارے دوست ہوں گے۔ اسی لیے میں نے بھی انہیں کچھ نہ کہا۔ یہاں تک کہ ہم امدادی کیمپ میں موجود میڈیکل سٹاف تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد ابراہیم کو مجھ پر بہت غصہ آیا۔ کچھ دن تک تو اس نے مجھ سے بات تک نہ کی۔ میں اس کی وجہ سمجھتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ کام فقط خدا کے لیے کرنا چاہیے نہ کہ لوگوں کو بتانے کے لیے۔
*****
ریکی پر مامور گروپ کے ساتھ ہم دشمن کے علاقے میں گھس گئے۔ ریکی کا فریضہ انجام دے رہے تھے کہ اچانک ہمیں بھیڑوں کا ایک گلہ نظر آیا۔ گلے کے چرواہے نے ہمارے نزدیک آ کر ہمیں سلام کیا۔ اس کے بعد پوچھنے لگا: ’’تم لوگ خمینی کے سپاہی ہو؟!‘‘ ابراہیم نے آگے بڑھ کر جواب دیا: ’’ہم خدا کے بندے ہیں۔‘‘ اس کے بعد پوچھا: ’’بابا جی، آپ اس پہاڑی علاقے اور ویرانے میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں یہیں رہتا ہوں۔‘‘اس نے دوبارہ پوچھا: ’’تو آپ کو یہاں کوئی مشکل تو پیش نہیں آتی؟‘‘ اس بوڑھے شخص نے مسکرا کر کہا: ’’اگر مشکل نہ ہوتی تو یہاں سے چلا جاتا۔‘‘ ابراہیم اپنے سامان کی طرف گیا اور وہاں سے ایک ٹوکری کھجوروں کی، کچھ روٹیاں اور گروپ کے جوانوں کے سامان میں سے بھی کچھ سامان لا کر اس بوڑھے کو دے دیا اور کہا: ’’یہ تمہارے لیے امام خمینی کی طرف سے تحفہ ہے۔‘‘ وہ بوڑھا بہت ہی خوش ہوا اور دعائیں دینے لگا۔ اس کے بعد ہم وہاں سے دور ہو گئے۔ بعض جوانوں نے ابراہیم پر اعتراض بھی کیا کہ ہمیں اس علاقے میں ایک ہفتے تک رہنا ہے۔ تم نے زیادہ تر سامان تو بوڑھے کو دے دیا۔ ابراہیم نے کہا: ’’پہلی بات تو یہ کہ ابھی تک صحیح معلوم نہیں ہے کہ ہمارا کام کتنے دن تک جاری رہے گا اور دوسری بات یہ کہ تم لوگ مطمئن رہو کہ یہ بوڑھا اب ہمارا دشمن نہیں رہا۔ تمہیں شک نہیں کرنا چاہیے کہ خدا کے لیے کیا جانے والا کام ہمیشہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔‘‘ اس ریکی میں کھانے پینے کا سامان کافی کم ہونے کے باوجود ہمارا کام بہت جلدی نمٹ گیا، حتی کہ کچھ سامان ہم بچا کر بھی لے آئے۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.