شهید ابراهیم هادی

علماء کی محفل میں

 

جنگ کا پہلا سال تھا۔ میں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔میں اور ابراہیم موٹر سائیکل پر سرآسیاب چوک سے خراسان چوک کی طرف جا  رہے تھے۔ وہ میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک سڑک سے ہم گزرے تو اچانک ابراہیم نے کہا: ’’امیر، ٹھہرو!‘‘ میں نے جلدی سے موٹر سائیکل سڑک کی ایک طرف موڑ دی اور حیران ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا: ’’کچھ نہیں۔ اگر تمہارے پاس وقت ہے تو ایک بندۂ خدا سے ملنے چلتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔ مجھے کوئی خاص کام نہیں ہے۔‘‘ ہم دونوں ایک گھر میں داخل ہو گئے۔ کئی مرتبہ یا اللہ کہنے کے بعد ایک کمرے کے اندر چلے گئے۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک معمر شخص کالی عبا پہنے محفل کی مرکزی جگہ پر بیٹھے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا اور کمرے کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہ عالم کسی جوان سے کچھ بات کر رہے تھے، جو اب ختم ہو گئی تھی۔ انہوں نے ہماری طرف رُخ کیا اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا: ’’آغا ابراہیم، آج اِدھر کا راستہ کیسے بھٹک گئے!‘‘ ابراہیم سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ ادب  سے کہنے لگا: ’’حاجی آغا، شرمندہ ہوں۔ دراصل خدمت میں پہنچے کا وقت نہیں ملتا۔‘‘ ان کی آپس کی باتوں سے میں سمجھ گیا کہ وہ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے تھوڑی دیر دوسرے لوگوں سے باتیں کی۔ جب کمرہ خالی ہو گیا تو انہوں نے ابراہیم کی طرف رُخ کیا اور انتہائی منکسرانہ لہجے میں کہنے لگے: ’’آغا ابراہیم، ہمیں کچھ نصیحت کیجیے۔‘‘ ابراہیم شرم کے مارے سُرخ ہو گیا اور سر اٹھا کر کہنے لگا: ’’حاجی آغا، آپ کو خدا کا واسطہ، ہمیں شرمندہ نہ کیجیے۔ میری درخواست ہے کہ آپ ایسی بات نہ کیجیے۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ کی زیارت کر سکیں۔ انشاء اللہ ہفتہ وار درس میں ضرور حاضرِ خدمت ہوں گا۔‘‘ اس کے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور خدا حافظ کہہ کر وہاں سے باہر نکل آئے۔ راستے میں میں نے ابراہیم سے کہا؛ ’’ابرام جان، تم بھی ان آغا کو کوئی نصیحت کر دیتے۔ اتنا سرخ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میری بات پر وہ غصے سے اچھل پڑا: ’’کیا کہہ رہے ہو امیر جان، تم ان آغا کو جانتے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں، سچ بتاؤ، کون تھے یہ؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’وہ ایک ولی اللہ ہیں مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یہ حاج میرزا اسماعیل دولابی تھے۔‘‘ کئی سال گزرے تو لوگوں نے حاج آغا دولابی کو پہچانا۔ مجھے بھی حال ہی میں ان کی کتاب ’’طوبیٰ محبت‘‘ پڑھنے کے بعد سمجھ آئی کہ ابراہیم کو جو جملہ انہوں نے کہا تھا وہ کتنا عظیم تھا۔

*****

ملک کے مغربی حصے میں بھیجی جانے والی مہموں میں سے ایک اپنے اختتام کو پہنچ  چکی تھی لہٰذا اکثر مجاہدین کی ہم آہنگی سے طے پایا کہ سب مل کر امام خمینیؒ سے ملاقات کے لیے جائیں۔ اگرچہ ابراہیم اس مہم میں شریک تھا مگر اس کے باوجود تہران نہیں گیا۔ میں نے جا کر اس سے پوچھا: ’’تم کیوں نہ گئے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ سب لوگ محاذ کو خالی چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہاں کچھ لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کیا واقعاً تم اسی وجہ سے نہیں گئے؟‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہنے لگا: ’’ہمیں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے لیے رہبر نہیں چاہیے بلکہ اس لیے چاہیے کہ ان کی اطاعت کریں۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں اگر اپنے رہبر کو نہیں دیکھ سکتا تو یہ اتنا ضروری بھی نہیں ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں ان کے فرمان کا تابع رہوں اور میرے رہبر مجھ سے خوش رہیں۔‘‘ ولایت فقیہ کے حوالے سے ابراہیم بہت حساس تھا۔ وہ امام کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے نظریات رکھتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’قدیم اور جدید علماء و بزرگان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس کے اندر امام خمینیؒ جیسی جرأت و بہادری موجود ہو۔‘‘ جب بھی امام خمینیؒ کا کوئی پیغام نشر ہوتا تو وہ بہت غور سے سنا کرتا اور کہتاتھا: ’’اگر ہم دنیا و آخرت چاہتےہیں تو ہمیں چاہیے کہ امام کی باتوں پر عمل کریں۔‘‘ ابراہیم اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اپنے علاقے کے اکثر علماء سے رابطے میں رہتا تھا۔ جن دنوں علامہ جعفری ہمارے محلہ میں رہتے تھے، ابراہیم نے ان کے وجود سے بہت زیادہ کسبِ فیض کیا۔ ابراہیم کے نزدیک شہید آیت اللہ مطہری اور شہید آیت اللہ بہشتی جوان نسل کے لیے بہترین اور مکمل نمونہ تھے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location