شهید ابراهیم هادی

زیارت

 

جنگ کا پہلا سال تھا۔اندرزگو گروپ کے کچھ جوانوں کے ساتھ ہم گیلان غرب کے شمالی علاقے میں موجود چوٹیوں پر گئے۔ بالکل صبح کا وقت تھا۔ ہم سرحد کے بالکل ساتھ ہی واقع ایک ٹیلے پر جا ٹھہرے۔ سرحد پر واقع فوجی چوکی عراقیوں کے قبضے میں تھی۔ عراقی گاڑیاں پورے اطمینان سے وہاں کی سڑکوں پر گھوم رہی تھیں۔ ابراہیم نے دعاؤں والا کتابچہ کھولا۔ ہم سب نے مل کر زیارت عاشورا پڑھی۔ اس کے بعد میں نے دشمن کے مقبوضہ علاقوں پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر ابراہیم سے کہا: ’’ابرام جان، اس سرحدی راستے کو دیکھو۔ عراقی کتنے سکون سے اس پر آ جا رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے حسرت سے کہا: ’’کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک دن ہمارے لوگ ان راستوں پر اطمینان و سکون سے چل پھر سکیں اور اپنے شہروں کو واپس پلٹ سکیں۔‘‘ ایسا لگتا تھا کہ ابراہیم کا میری باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں ہے۔وہ دور اپنی نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگا: ’’کیا کہہ رہے ہو! ایک دن آئے گا اسی راستے سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں کربلا کی طرف سفر کریں گے۔‘‘ واپسی پر میں نے جوانوں سے پوچھا: ’’کیا آپ لوگ اس سرحدی چوکی  نام جانتے ہیں؟‘‘ ایک جوان نے کہا: ’مرز خسروی۔’‘ اس واقعے کے بیس سال بعد ہم کربلا گئے۔ میری نظریں اسی چوٹی پر تھیں کہ جس کی بلندی پر بیٹھ کر ابراہیم نے زیارتِ عاشورا پڑھی تھی۔ میں گویا ابراہیم کو دیکھ رہا تھا کہ وہ ہمیں رخصت کر رہا ہے۔وہ چوٹی مرز خسروی کے علاقے کے بالکل سامنے تھی۔ اس دن بسیں سرحد کی طرف جا رہی تھیں۔ اسی راستے سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں کربلا کی زیارت کو جا رہے تھے۔ ہم جب بھی تہران میں ہوتے تھے تو ہر شب جمعہ کو حضرت عبدالعظیم کی زیارت پر جانا ابراہیم کا معمول تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’شب جمعہ، خدا کی رحمت کی رات ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی شب ہے۔ سارے اولیاء اور ملائکہ کربلا جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ایسی جگہ پر جانا چاہیے کہ جس کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ اس جگہ کی زیارت کربلا کی زیارت جتنا ثواب رکھتی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اسی جگہ دعائے کمیل پڑھا کرتا تھا اور رات کے ایک بجے واپس آ جاتا۔ جس زمانے میں بسیج کے پروگرام شروع ہوئے تو وہ زیارت کے بعد سیدھا مسجد میں بسیجی جوانوں کے پاس آ جاتا۔ ایک رات ہم اکٹھے ہی حرم سے باہر نکلے۔ مجھے چونکہ جلدی تھی اس لیے میں ایک دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر مسجد آ گیا لیکن ابراہیم دو تین گھنٹے بعد پہنچا۔ میں نے پوچھا: ’’ابراہم جان، بہت دیر لگا دی؟!‘‘ کہنے لگا: ’’حرم سے پیدل ہی نکل پڑا تھا تا کہ راستے میں شیخ صدوق کی زیارت بھی کرتا جاؤں کیونکہ تہران کے پرانے لوگ کہتے ہیں کہ امام زمانہ عج شب جمعہ کو شیخ صدوق کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’بہت اچھے، مگر پیدل کیوں آئے؟‘‘ اس نے صحیح جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: ’’تمہیں تو مسجد میں آنے کی جلدی تھی، لیکن تم پیدل آئے۔ اس کی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی!‘‘ میرے اصرار پر اس نے جواب دیا: ’’حرم سے باہر آیا تو ایک بہت ہی محتاج اور ضرورتمند شخص میرے پاس آیا۔ میں نے اپنی جیب  میں پڑے  پیسے اسے دے دیے۔ جب ٹیکسی پر سوار ہونے لگا تو دیکھا کہ کرائے کے لیے پیسے نہیں بچے۔ اسی وجہ سے پیدل آنا پڑا۔‘‘

*****

ہر ہفتے کے آخر میں ہم اکٹھے ہی زیارت پر جاتے  اور آدھی رات کے وقت بہشت زہرا میں شہداء کی قبروں پر جاتے تھے۔ اس کے بعد ابراہیم ہمارے سامنے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب بیان کیا کرتا۔ بعض اوقات قبر کے اندر چلا جاتا اور عجیب حالت میں روتے ہوئے پُرسوز آواز میں دعائے کمیل پڑھا کرتا تھا۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location