دستی بم (ہینڈ گرنیڈ)
معرکہ مطلع الفجر سے پہلے کی بات ہے۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے سپاہ پاسداران اور فوج کے کمانڈرز کے درمیان اندرزگو گروپ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک میٹنگ ہوئی۔ میں، ابراہیم، فوج کے تین اور سپاہ کے تین افسران اس میٹنگ میں شامل تھے۔ کچھ جوان صحن میں فوجی تربیت لے رہے تھے۔ میٹنگ کے دوران سب محو گفتگو تھے کہ اچانک کمرے کی کھڑکی سے ایک دستی بم اندر کی طرف پھینکا گیا۔ وہ بالکل کمرے کے درمیان میں آ کر گرا۔ خوف سے میرا رنگ اڑ گیا۔ کمرے میں جہاں میں بیٹھا ہوا تھا وہیں اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور دیوار کی طرف منہ کر کے پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔ چند لمحوں کے لیے میرا سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا۔ دوسرے لوگ بھی میری طرح دیوا ر کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ وہ لمحات کافی مشکل سے گزر رہے تھے، لیکن ابھی تک بم پھٹنے کی آواز نہ سنائی دی تھی۔ میں نے بہت آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی انگلیوں کے فاصلوں سے کمرے کے درمیان دیکھا۔ میری آنکھوں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ابراہیم کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’آغا ابرام۔۔۔‘‘ دوسرے لوگوں نے بھی کمرے کے کونوں سے ایک ایک کر کے اپنا سر اٹھایا۔ سب اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ کمرے کے درمیان دیکھ رہے تھے۔ بہت ہی عجیب و غریب منظر تھا۔ ہم سب کے سب تو کمرے میں ادھر ادھر بکھر گئے تھے، مگر ابراہیم بم کے اوپر لیٹ گیا تھا۔ اسی دوران ٹریننگ افسر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سب سے معذرت خواہی کرتے ہوئے کہا: ’’میں بہت شرمندہ ہوں، یہ پریکٹس والا بم تھاجو غلطی سے کمرے میں آن گرا۔‘‘ ابراہیم بم پر سے ہٹ کر اٹھ گیا۔ وہ جنگ کا پہلا سال تھا لیکن اس وقت تک ایسا کوئی اتفاق پیش نہیں آیا تھا۔ وہ بم گویا ہماری مردانگی کا امتحان لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد اس بم والا واقعہ سب جوانوں میں مشہور ہو گیا۔