شهید ابراهیم هادی

مطلع الفجر  

 

بنی صدر کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے معزول ہوئے کچھ عرصہ گزر چکا تھا۔ عراقی فوج کا دبدبہ ختم کرنے کے لیے جنگ کے شمالی، مغربی اور جنوبی محاذوں پر کچھ حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی۔ 29 نومبر کو پہلا  بڑا حملہ طریق القدس (بستان کی آزادی کے لیے)کیا گیا۔ اس میں بعثی حکومت کی فوج کو پہلی بار بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ افسران کی ہم آہنگی کے مطابق دوسرا حملہ گیلان غرب سے لے کر سرپل ذہاب کے علاقے تک کرنا تھا جو بغداد شہر کا قریب ترین محاذ تھا۔ اسی لیے کافی عرصہ پہلے اس علاقے کی ریکی اور فوجوں کی تیاری کا کام شروع ہو چکا تھا۔ اس علاقے میں کیے جانے والے حملے گیلان غرب کور کے ہیڈ کوارٹر کے زیرِ نگرانی انجام پانا تھے۔ اندرزگو گروپ کے تمام جوان کمربستہ تھے۔دشمن کے علاقوں کی ریکی کا فریضہ ابراہیم کے کندھوں پر تھا۔ یہ کام تھوڑے ہی عرصے میں مکمل طور پر انجام پا گیا۔ ابراہیم معلومات اور مخبری  کے لیے  ایک کُرد جوان کو ساتھ لے کر دشمن کی فوج کے تعاقب میں گیا۔ وہ ایک ہفتے کے دوران نفت شہر تک پہنچ گئے تھے۔ اس عرصے میں ابراہیم نے محاذ جنگ کے بہت ہی اچھے نقشے تیار کر لیے تھے۔ اس کے بعد وہ چار عراقیوں کو بھی قید کر کے اپنے کیمپ میں واپس آ گئے۔ ابراہیم نے ان قیدیوں سے پوچھ گچھ کرنے اور ضروری معلومات لینے کے بعد حملوں کے لیے نقشوں کو مکمل کیا اور افسران کی ہونے والی میٹنگ میں انہیں پیش کر دیا۔ فوج کی ذوالفقار بریگیڈ سے کرنل علی یاری اور میجر سلامی  بھی سپاہ کے جوانوں کے ساتھ مل گئے۔ سرپل ذہاب سے لے کر گیلان غرب تک مقامی فوجیوں میں سے اکثر کو مختلف بٹالینز میں تقسیم کر دیا گیا۔اندرزگو گروپ کے اکثر جوان ان بٹالینز کے انچارج مقرر ہوئے۔ سپاہ اور رضاکاروں کی کچھ بٹالینز نے بطور ہراول دستوں کے حملے شروع کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ آخری میٹنگ میں اعلیٰ افسران نے ابراہیم کو حملوں کے مرکزی محاذ، برادر صفر خوش روان کو بائیں محاذ اور برادر داریوش ریزہ وندی کو دائیں محاذ  کا کمانڈر منتخب کیا۔اس حملے کا مقصد  شہر گیلان غرب  کی چوٹیوں کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانا اور گورک و حاجیان کی گھاٹیوں اور سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرنابتایا گیا۔ حملے والے علاقے کا رقبہ تقریباً ستر کلومیٹر تھا۔کمان سنٹر سے یہ اطلاع پہنچی تھی کہ اس حملے کے فوراً بعد مریوان کے علاقے میں تیسرا حملہ کر دیا جائے گا۔ تمام معاملات مکمل ہم آہنگی سے طے پا رہے تھے۔ حملہ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے سپاہ کے مرکزی دفترسے یہ اطلاع ملی کہ عراق نے بستان کا علاقہ واپس لینے کے لیے ایک بڑے جوابی حملے کی تیاری کر لی ہے۔ آپ سب لوگ جلدی سے اپنے حملے کا آغاز کریں تا کہ بستان کے محاذ سے عراق کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ اسی وجہ سے اگلے دن یعنی 11 دسمبر 1981؁ کو حملہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم ولولے اور جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ اگلے روز  ملک کے مغربی محاذ کی چوٹیوں پر ایک بڑے اور وسیع حملے کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ کسی بھی چیز کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس رات تمام جوانوں کے الوداعی مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ بالآخر حملے کا دن آن پہنچا۔ مختلف محاذوں پر جوانوں کی شدید کارروائیوں سے بہت سے اہم اور اسٹریٹجک علاقے جیسے حاجیان اور گورک کے درے، بر آفتاب کا علاقہ، سرتتان، چرمیان، دیزہ کش، فریدون ہوشیار کی چوٹیاں، شیاکوہ کی بعض چوٹیاں اور دشت گیلان کے سارے گاؤں آزاد کروا لیے گئے۔ مرکزی محاذ پر کچھ ٹیلوں اور دریا پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے فوجی جوان انار کی چوٹیوں کی طرف بڑھنے لگے۔ دشمن دیوانہ وار آگ برسا رہا تھا۔بعض بٹالینز ٹیلوں کو عبور کرتے ہوئے شیاکوہ کی چوٹیوں کے اوپر تک جا پہنچیں۔ دشمن اچھی طرح جانتا تھا کہ شیاکوہ کے ہاتھوں سے جاتے ہی وہ عراق کے شہر خانقین سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ان چوٹیوں اور جنگ کے علاقے میں اپنی زیادہ سے زیادہ فوج اتار دی تھی۔آدھی رات کو وائرلیس سے پیغام ملا: ’’حسن بالاش اور جمال تاجیک اپنے جوانوں کے ساتھ مرکزی محاذ سے نکل کر شیاکوہ پہنچ گئے ہیں اور مزید کمک مانگ رہے ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ابراہیم نے فون کیا: ’’انار کی تمام چوٹیاں آزاد ہو چکی ہیں، فقط ایک چوٹی جو بہت ہی حساس اور اہم مقام پر ہے، پر ہمیں شدید دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ نفری بھی نہیں ہے۔‘‘میں نے ابراہیم سے کہا: ’’صبح ہونے سے پہلے پہلے میں امدادی نفری لے کر تم سے آن ملوں گا۔ تم فوجی افسران سے مل کر منصوبہ بندی کرو اور جیسے تیسے ہو اس ٹیلے کو آزاد کرواؤ۔‘‘میں امدادی نفری پر مشتمل ایک بٹالین لے کر مرکزی محاذ کی طرف چل پڑا۔ ہم لوگ راستے میں ہی تھے کہ سپاہ کے مرکزی دفتر سے اطلاع ملی: ’’دشمن نے بستان پر قبضے کا خیال دل سے نکال دیا ہے لیکن اس نے بہت بھاری تعداد میں فوج تمہارے محاذ کی طرف بھیج دی ہے۔ تم لوگ ڈٹ کر دفاع کرو،انشاء اللہ مریوان کی سپاہ پاسداران حاج احمد متوسلیان کی کمان میں جلد ہی اگلے حملے کا آغاز کرنے والی ہے۔‘‘ اسی پیغام کے ضمن میں انہوں نے فوج اور سپاہ کے جوانوں کی آپس میں بہترین ہم آہنگی اور منصوبہ بندی کی تعریفیں کیں اور بتایا: ’’موصولہ رپورٹس کے مطابق آپ لوگوں کے حملے نے عراقی فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اب عراقی فوج کے ہیڈ کوارٹر نے حکم دیا ہے کہ اس محاذ پر مزید امدادی فوج بھیجی جائے۔‘‘جھٹ پُٹے کا وقت ہو چلا تھا۔ راستے میں ہم نے نمازِ فجر ادا کی۔ ابھی ہم انار کے علاقے میں نہ پہنچے تھے کہ گیلان غرب کے محاذ پر غلام علی پیچک کی شہادت کی خبر نے ہمیں سوگوار کر دیا۔جیسے ہی ہم انار کی چوٹیوں پر پہنچے تو ایک جوان نے آگے بڑھ کر خالص مشہدی لہجے میں مجھے بتایا: ’’حاج حسین، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ابراہیم شہید ہو گئے ہیں؟!‘‘میرا بدن لرز کر رہ گیا۔ میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’کیا ہوا؟!‘‘اس نے جواب دیا: ’’ابراہیم کی گردن پر ایک گولی لگی ہے۔‘‘میرا رنگ اڑ گیا۔ سر گھومنے لگا۔ میں بے اختیار سامنے والے مورچوں کی طرف بھاگنے لگا۔ سارے راستے میرے ذہن میں وہ تمام لمحات فلم کی طرح چلنے لگے جو میں نے ابراہیم کے ساتھ گزارے تھے۔ میں طبی امداد والے مورچے میں اتر کر اس کے سرہانے پہنچ گیا۔ابراہیم کی گردن کے عضلات میں ایک گولی پیوست ہو گئی تھی۔ اس سے بہت سا خون بہہ رہا تھا۔ میں نے جواد کو ڈھونڈ کر پوچھا: ’’ابرام کو کیا ہوا ہے؟!‘‘وہ تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا: ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا بتاؤں؟‘‘میں نے پوچھا: ’کیا مطلب؟!’‘‘اس نے جواب دیا: ’’ہم نے فوج کے افسران سے بات کی کہ ٹیلے پر کیسے حملہ کریں۔ عراقی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔ ٹیلےکے اوپر اور آس پاس ان کے بہت سے فوجی تھے۔ ہم نے لاکھ جتن کیے مگر کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ فجر کی اذان ہونے والی تھی اور ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ لیکن کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ کیا کریں۔ اچانک ابراہیم مورچے سے نکل کر عراقیوں کے ٹیلے کی طرف بڑھنے لگا اور پتھر کی ایک سِل پر روبہ قبلہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے بلند آواز سے اذانِ فجر دینا شروع کر دی۔ ہم نے بہت شور مچایا کہ ابراہیم، پیچھے آ جاؤ، عراقی ابھی تمہیں مار دیں گے۔ لیکن ہماری چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ تقریباً ساری اذان دے چکا تھا۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ عراقیوں کی فائرنگ رُک چکی تھی لیکن اسی وقت ایک گولی چلی اور ابراہیم کو آ کر لگی۔ اس کے بعد ہم اسے اٹھا کر پیچھے لے آئے۔‘‘

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location