ہم انار کی چوٹیوں پر تھے۔ فضا میں مکمل طور پر روشنی پھیل چکی تھی۔ نرس نے ابراہیم کی گردن کے زخم پر پٹی باندھ دی تھی۔ میں جوانوں کی ڈیوٹیاں لگانے اور وائرلیس پر بات کرنے میں مشغول تھا۔ اچانک ایک جوان دوڑتا ہوا جلدی سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’سر، سر، کچھ عراقی اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے ہماری طرف آ رہے ہیں۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں ہیں وہ لوگ؟!‘‘ اس کے بعد ہم اکٹھے ہی ٹیلے کے پاس ایک مورچے کی طرف چل پڑے۔ سامنے والے ٹیلے سے تقریباً بیس افراد اپنے ہاتھوں میں سفید کپڑے اٹھائے ہماری طرف آ رہے تھے۔ میں نے فوراً کہا: ’’جوانو، اپنا اپنا اسلحہ اٹھا لو اور ہوشیار رہو۔ شاید یہ دشمن کی ایک چال ہو۔‘‘ کچھ دیر بعد اٹھارہ عراقی، کہ جن میں سے ایک ان کا اعلیٰ افسر بھی تھا، ہمارے سامنے سرنڈر کر چکے تھے۔ میں بھی اس بات پر خوش تھا کہ ہم نے اس محاذ پر بھی کچھ عراقیوں کو اسیر کر لیا ہے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ہمارے جوانوں کے بھرپور حملے اور گولہ باری نے عراقیوں کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ قید ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اس عراقی افسر کو اپنے مورچے میں بلایا اور عربی جاننے والے اپنے ایک فوجی کو بھی آواز دی۔ میں نے تفتیشی افسر کے لہجے میں پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟ اپنا رینک اور ذمہ داری بھی بتاؤ۔‘‘ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا: ’’میں میجر ہوں اور ٹیلے اور اس کے اطراف پر تعینات فوجیوں کی کمان میرے ہاتھ میں تھی۔ ہم بصرہ کی ریزرو فوج میں سے ہیں جنہیں اس محاذ پر بھیجا گیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’اب ٹیلے پر کتنے فوجی رہ گئے ہیں؟‘‘ کہنے لگا: ’’ایک بھی نہیں۔‘‘میں نے حیرت سے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا: ’’کوئی بھی نہیں؟!‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ہم یہاں اپنے آپ کو آپ کو لوگوں کے حوالے کرنے آئے ہیں۔ باقی فوجیوں کو میں نے پیچھے بھیج دیا ہے۔ اب ٹیلہ بالکل خالی ہے۔‘‘ میں نے دوبارہ تعجب سے پوچھا: ’’کیوں؟!‘‘ کہنے لگا: ’’کیونکہ وہ لوگ سرنڈر نہیں ہونا چاہتے تھے۔‘‘ میری حیرت بڑھ گئی: ’’کیا مطلب؟!‘‘ اس عراقی افسر نے میرے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے مجھ سے سوال کر دیا: ’’أین الموذن؟‘‘ اس جملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ترجمے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے تعجب سے پوچھا: ’’مؤذن؟!‘‘ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ روہانسا ہو کر ہمیں ساری بات بتانے لگا۔ مترجم جلدی جلدی اس کی باتوں کا ترجمہ کیے جا رہا تھا: ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ تم لوگ مجوس اور آتش پرست ہو۔ ہمیں یہ بھی باور کروایا گیا کہ ہم اسلام کی خاطر ایران پر حملہ کریں گے اور ایرانیوں سے جنگ لڑیں گے۔ تم لوگ یقین کرو، ہم سب شیعہ ہیں۔ جب ہم دیکھتے تھے کہ عراقی افسر شراب پیتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے تو ہمیں تم لوگوں سے جنگ لڑنے میں تردد ہونے لگا۔ آج صبح جب ہم نے تمہارے ایک سپاہی کی اذان سنی جو اپنی خوش لحن اور بلند آواز میں اذان دے رہا تھا تو میرا سارا بدن لرز کر رہ گیا۔ جب اس نے اذان میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کا نام لیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’تم اپنے بھائیوں سے جنگ لڑ رہے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کربلا والا ماجرا دوبارہ دہرایا جا رہا ہو۔۔۔‘‘ اس کے بعد زارو زار آنسوؤں نے اسے بولنے نہ دیا۔تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’یہی وجہ بنی کہ میں نے سرنڈر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور چاہا کہ اپنے گناہوں کا بوجھ زیادہ نہ کروں۔ پس میں نے حکم دیا کہ کوئی فوجی گولی نہ چلائے۔ جیسے ہی اجالا ہوا تو میں نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ میں ایرانیوں کے آگے سرنڈر کرنا چاہتا ہوں۔ جو بھی میرے ساتھ آنا چاہے آ سکتا ہے۔ یہ افراد جو میرے ساتھ آئے ہیں، سبھی میرے ہم عقیدہ ہیں۔ میرے باقی ماتحت فوجی واپس چلے گئے۔ البتہ جس فوجی نے مؤذن کو گولی ماری تھی، اسے بھی میں لے آیا ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا۔ اب مہربانی کر کے مجھے یہ بتائیں کہ وہ مؤذن زندہ ہے یا نہیں؟!‘‘ میں ہکا بکا اس عراقی افسر کی باتیں سنے جا رہا تھا۔ کچھ کہنے کی سکت نہیں تھی۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد میں نے کہا: ’’ہاں، زندہ ہے۔‘‘ ہم اکٹھے ہی مورچے سے باہر نکلے اور ابراہیم کے پاس چلے گئے جو ایک اور مورچے میں سویا ہوا تھا۔ اٹھارہ کے اٹھارہ عراقی قیدی آگے بڑھ کر ابراہیم کے ہاتھوں کو بوسے دیتے لگے۔ آخری قیدی ابراہیم کے پاؤں میں گر پڑا اور رونے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے معاف کر دو۔ میں نے ہی تم پر گولی چلائی تھی۔‘‘ میری آنکھیں بھی بھر آ ئی تھیں۔ مجھ پر عجیب طرح کی کیفیت طاری تھی۔ میرا دھیان حملے اور اپنے فوجیوں کی طرف تھا ہی نہیں۔ میں ان عراقی قیدیوں کو پیچھے واپس بھیجنے کا سوچ رہا تھا کہ عراقی افسر مجھے بلا کر کہنے لگا: ’’وہاں دیکھو۔ ایک کمانڈو بٹالین اور کچھ ٹینک وہاں سے پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’تم لوگ جلدی سے جاؤ اور اس ٹیلے پر قبضہ کر لو۔‘‘ میں نے بھی جلدی سے اندرزگو گروپ کے کچھ جوانوں کو ٹیلے کی طرف بھیج دیا۔ اس ٹیلے کے ہاتھ آتے ہی انار کا علاقہ مکمل طور پر دشمنوں سے پاک ہو گیا۔ دشمن کی کمانڈو بٹالین نے بھی حملہ کیا لیکن ہم چونکہ بھرپور تیاری میں تھے اس لیے ان کے اکثر فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ شکست کھا گئے۔اگلے دنوں میں مریوان میں معرکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے گیلان غرب پر عراقی فوج کا دباؤ کافی حد تک کم ہو گیا۔ بہرحال معرکہ مطلع الفجر کی وجہ سے ہم نے اپنے بہت سے مقاصد پورے کر لیے۔ ہمارے ملک کے بہت سے خطے آزاد ہو گئے۔ اگرچہ اس حملے میں ہمیں غلام علی پیچک، جمال تاجیک اور حسن بالاش جیسے بہت سے کمانڈرز کی شہادت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ چند دن آرام کرنے کی وجہ سے ابراہیم جب مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ آ کر گروپ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ اسی دن یہ اطلاع بھی مل گئی کہ معرکہ والفجر، جو ’’یامہدی (عج)‘‘ کے کوڈ ورڈ سے اپنے انجام کو پہنچا، میں عراقی فوج کی چودہ مخصوص بٹالینز کام آ گئی ہیں۔ دو ہزار کے قریب فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ دو سو قیدی فوجیوں کا نقصان بھی عراق کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ عراق کے دو لڑاکا طیارے بھی ہمارے جوانوں کے نشانے پر آنے کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔
*****
معرکہ مطلع الفجر کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ 87-1986 کی سردیوں میں ہم شلمچہ میں معرکہ کربلا۵ میں مصروف تھے۔جاسوسی معلومات اور مختلف ڈویژنز کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کچھ ذمہ داری ہمارے سپرد تھی۔ میں ڈویژنز کے جوانوں کے ساتھ ہم آہنگی کرنے اور انہیں کچھ ضروری ہدایات دینے کے لیے بدر ڈویژن کے کیمپ میں گیا۔ طے یہ پایا تھا کہ اس ڈویژن کی بٹالینز جو تمام کی تمام ان عراقیوں اور عرب زبان جوانوں پر مشتمل تھیں جو صدام کے مخالف تھے، کو حملے کے اگلے مرحلے پر روانہ کیا جائے۔ میں نے ڈویژن کے افسران اور بٹالینز کے افسران سے میٹنگز کرنے اور ضروری ہم آہنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری ادا کی اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ دور سے ہی میں نے بدر ڈویژن کے ایک جوان کو دیکھا جو مجھ پر نظریں جمائے میری طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ میں چلنے ہی لگا تھا کہ وہ بسیجی جوان آگے بڑھا اور مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ اس نے بغیر کسی تمہید کے عربی لہجے میں مجھ سے کہا: ’’آپ گیلان غرب میں نہیں تھے؟!‘‘ میں نے تعجب سے کہا: ’’ہاں۔‘‘ میں سوچ رہا تھا کہ شاید یہ مغربی علاقے کا کوئی جوان ہے۔ اس کے بعد وہ مجھے کہنے لگا: ’’مطلع الفجر یاد ہے نا آپ کو؟ انار کی چوٹیاں، آخری ٹیلہ!‘‘ میں نے تھوڑی دیر غور سے سوچ کر کہا:’’ہاں، یاد ہے۔ پھر؟!‘‘ کہنے لگا: ’’وہ اٹھارہ عراقی جو قید ہو گئے تھے، وہ بھی یاد ہیں نا آپ کو؟!‘‘ میں نے پھر حیرانی سے کہا: ’’ہاں بالکل یاد ہیں۔ مگر تم کون ہو؟‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’میں انہی میں سے ایک ہوں۔‘‘ میری حیرانی میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے پوچھا: ’’یہاں کیا کر رہے ہو؟!‘‘ وہ کہنے لگا: ’’ہم سارے اٹھارہ کے اٹھارہ افراد اسی بٹالین میں ہیں۔ آیت اللہ حکیم کی ضمانت پر ہمیں آزاد کر دیا گیا تھا۔ وہ ہمیں اچھی طرح پہچانتے تھے۔ پھر یہ طے پایا کہ ہم محاذ پر آ جائیں اور بعثیوں کے ساتھ جنگ کریں۔‘‘ میرے لیے بہت تعجب کی بات تھی۔ میں نے کہا: ’’خدا تمہیں سلامت رکھے۔ تمہارا افسر کہاں ہے؟!‘‘ اس نے جواب دیا: ’’وہ بھی اسی بٹالین میں ایک عہدے پر فائز ہے۔ اب ہم فرنٹ لائن کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’اپنا اور اپنی بٹالین کا نام اس کاغذ پر لکھ دو۔ میں اس وقت جلدی میں ہوں۔ حملے کے بعد آؤں گا اور تم سب لوگوں سے تفصیلی ملاقات کروں گا۔‘‘ اس نے اپنے جوانوں کے نام لکھتے لکھتے پوچھا: ’’تمہارے مؤذن کا کیا نام تھا؟!‘‘ میں نے جواب دیا: ’’ابراہیم، ابراہیم ہادی۔‘‘ وہ کہنے لگا: ’’ہم سب اس کی تلاش میں تھے۔ اپنے افسران سے بھی ہم نے درخواست کی تھی کہ اسے کہیں سے ڈھونڈیں۔ ہم اس مردِ خدا سے ایک دفعہ پھر ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں ساکت رہ گیا اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں نے کہا: ’’انشاء اللہ بہشت میں تم لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کر لو گے۔‘‘ غم سے اس کی بری حالت ہو گئی۔ اس نے اپنے سب جوانوں اور بٹالین کا نام لکھ کر میرے حوالے کیا۔ میں نے بھی جلدی سے خدا حافظ کہا اور چل دیا۔ یہ غیر متوقع ملاقات مجھے بہت اچھی لگی۔ مارچ 1987 میں مہم ختم ہو گئی۔ بہت سے جوان چھٹیوں پر چلے گئے۔ ایک دن مجھے اپنے سامان میں وہی کاغذ مل گیا جو عراقی اسیر یا بدر ڈویژن کے اسی بسیجی نے مجھے دیا تھا۔ میں بدر ڈویژن کے ان جوانوں سےملنے چلا گیا۔ ڈویژن کے ایک افسر سے کاغذ پر لکھی گئی بٹالین کا پوچھا تو اس نے جواب دیا: ’’یہ بٹالین ختم ہو گئی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’میں اس کے جوانوں سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ افسر نے مزید بتایا: ’’جس بٹالین کا آپ پوچھ رہے ہیں، یہ اپنے افسر کے ساتھ شلمچہ میں عراق کی طرف سے کیے جانے والے سخت حملے میں عراقی فوج کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ اگرچہ عراقی فوج نے انہیں شدید نقصان پہنچایا مگر وہ لوگ پھر بھی جم کر مقابلہ کرتے رہے اور پیچھے نہ ہٹے۔‘‘ اس کے بعد اس نے کچھ لمحے خاموش رہ کر اپنی بات کو آگے بڑھایا: ’’اس بٹالین میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر واپس نہ آیا۔‘‘ میں نے اسے کہا: ’’یہ اٹھارہ افراد عراقی قیدی تھے۔ یہ ان کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ میں ان سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ وہ آگے بڑھا اور نام میرے ہاتھ سے لے کر ایک اور شخص کو دے دیے۔ تھوڑی دیر گزری تو وہ شخص پلٹ آیا اور کہنے لگا: ’’یہ سب افراد شہید ہو چکے ہیں۔‘‘ میرے پاس کہنے کا کچھ نہ رہا تھا۔ وہیں بیٹھ کر سوچوں میں غرق ہو گیا اور اپنے آپ سے کہا: ’’ابراہیم نے ایک اذان کے ذریعے کیا کام کر ڈالا! ایک ٹیلہ آزاد ہوا، ایک حملہ کامیاب ہوا اور اٹھارہ افراد حضرت حُرؓ کی طرح جہنم کے گڑھے سے نکل کر جنت میں جا پہنچے۔‘‘ اس کے بعد مجھے اپنی وہ بات یاد آ گئی جو میں نے اس عراقی قیدی سے کہی تھی: ’’انشاء اللہ بہشت میں تم ایک دوسرے سے مل لو گے۔‘‘ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ اس کے بعد خداحافظ کہہ کر میں باہر آ گیا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ابراہیم جانتا تھا کہ کہاں اذان دینی ہے تا کہ دشمن کے دلوں کو لرزا دے اور جن لوگوں کے دل میں ابھی ایمان باقی ہے، ان کی ہدایت کرے۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.