شهید ابراهیم هادی

چفیه

 

1982؁ کے بہار کے دن تھے۔ ابراہیم چھٹی پر تھا۔ رات کے آخری پہر وہ گھر آیا تو ہم تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی جیب میں نوٹوں کی ایک بڑی گڈی پڑی ہے۔ میں نے پوچھا: ’’سچ بتاؤ، بھائی! یہ پیسے کہاں سے لاتے ہو؟ میں نے تو ابھی تک تمہیں لوگوں کی مدد کرتے یا انجمن کے لیے خرچ کرتے ہی دیکھا ہے۔ اور اب یہ اتنے پیسے تمہاری جیب میں پڑے ہیں!‘‘ اس کے بعد میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ’’سچ سچ بتاؤ، کوئی خزانہ تو ہاتھ نہیں لگ گیا؟!‘‘ ابراہیم ہنس کر کہنے لگا: ’’نہیں یار، میرے دوست مجھے یہ سب پیسے دے دیتے ہیں اور بتا بھی دیتے ہیں کہ انہیں کہاں خرچ کرنا ہیں۔‘‘ اگلے دن میں اور ابراہیم بازار گئے اور کچھ چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں سے گزرتے ہوئے اپنی مطلوبہ دکان تک پہنچ گئے۔ دکان کافی بڑی تھی۔ دکان کا معمر مالک اور اس کے شاگرد ایک ایک کر کے ابراہیم سے گلے ملنے اور بوسے لینے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ معمول کی کچھ گفتگو کے بعد ابراہیم نے کہا: ’’جناب، میں کل انشاء اللہ گیلان غرب جا رہا ہوں۔‘‘ دکاندار نے پوچھا: ’’ابرام جان، جوانوں کے لیے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟‘‘ ابراہیم نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور دکاندار کو دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’ان چند چیزوں کے علاوہ ایک ویڈیو کیمرے کی بھی ضرورت ہے، چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ اور اس کے دوران دکھائی جانے والی بہادری کے مناظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ مستقبل میں آنے والے لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کس انداز میں اس ملک اور اس دین کی حفاظت کی گئی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اس کے علاوہ مجاہد بھائیوں کےلیے زیادہ تعداد میں چفیے بھی چاہییں۔‘‘ یہاں تک بات پہنچی تو دکاندار کا بیٹا جو ابراہیم کی باتیں سن رہا تھا آگے بڑھ کر کہنے لگا: ’’دوربین تو ہو گئی، مگر آغا ابرام ، چفیہ کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ بھی آوارہ اور بے کار لوگوں کی طرح اپنی گردن پر رومال باندھنا چاہتے ہیں؟!‘‘ ابراہیم نے تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد جواب دیا: ’’بھائی، چفیہ فقط گردن کا رومال ہی نہیں ہے بلکہ مجاہد بھائی جب بھی وضو کرتے ہیں تو چفیہ ان کے لیے تولیے کا کام کرتا ہے، جب نماز پڑھتے ہیں تو ان کی جائے نماز بن جاتا ہے، زخمی ہوں تو اس سے زخم باندھ لیتے ہیں۔۔۔‘‘ بوڑھے دکاندار نے فوراً بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہو گا، آغا ابرام، ہم اس کا بھی انتظام کر لیں گے۔‘‘ اگلے دن ظہر سے پہلے کا وقت تھا۔ میں گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہی بوڑھا دکاندار بار سے لدی ہوئی ایک وانٹ[1] لے آیا۔  میں جلدی سے گھر میں داخل ہو گیا اور ابراہیم کو آواز دی۔ اس بوڑھے دکاندار نے ایک ویڈیو کیمرہ اور کچھ دوسرا سامان ابراہیم کے حوالے کیا اور کہنے لگا: ’’ابرام جان، یہ چفیہ سے بھری ہوئی گاڑی بھی میں لے  آیا ہوں۔‘‘ بعد میں ابراہیم بتایا کرتا تھا کہ معرکہ فتح المبین میں ہم نے ان چفیوں سے بہت سے کام لیے۔ آہستہ آہستہ چفیوں کا استعمال مجاہدین اسلام کی ایک خاص علامت بن گیا۔

 

[1]ایران میں باربرداری کے لیے استعمال ہونے والی ایک گاڑی۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location