شہید شہبازی کی رسم قل میں شرکت کے لیے ہم ایک سرحدی شہرمیں گئے۔ وہاں کے مقامی رسم و رواج کے مطابق قُل کی رسومات صبح سے ظہر تک جاری رہتی تھیں۔ ظہر کے وقت مہمانوں کے لیے لوٹا اور لگن لے آتے اور ان کے ہاتھ دھلا کر دن کا کھانا پیش کیا جاتا اور کھانے کے ساتھ ہی تقریب اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ ہم جیسے ہی تقریب میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جواد ایک اہم جگہ پر براجمان ہے اور اس کے ساتھ ابراہیم بھی بیٹھا ہوا ہے۔ میں بھی آگے بڑھ کر ابراہیم کے پاس بیٹھ گیا۔ ابراہیم اور جواد دونوں بہت گہرے دوست تھے اور دو بھائیوں کی طرح سلوک رکھتے تھے۔ ان کے مذاق اور نوک جھونک بھی کافی دلچسپ ہوتی۔ تقریب جیسے ہی ختم ہوئی تو میزبانوں میں سے دو افراد اٹھے اور پانی کا برتن اور لگن لے آئے۔ وہ سب سے پہلے جواد کے پاس آئے۔ جواد اس تقریب کے آداب کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ابراہیم نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ تعجب سے اونچی آواز میں پوچھنےلگا: ’’سچ کہہ رہے ہو؟!‘‘ ابراہیم نے آرام سے کہا: ’’آہستہ، کچھ بھی نہ کہو۔‘‘ اس کے بعد ابراہیم نے میری طرف رُخ کیا۔ وہ بغیر آواز کے بہت زیادہ ہنس رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا ابرام؟ نہ ہنسو، بری بات ہے۔‘‘ وہ میری طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’میں نے جواد سے کہا ہے کہ جیسے ہی لوٹا تمہارے پاس آئے تو اپنے سر کو اچھی طرح دھو لینا۔‘‘ تھوڑی دیر گزری تو ایسا ہی ہوا۔ جواد نے ہاتھ دھونے کے بعد اپنا سر لوٹے کے نیچے رکھ لیا اور۔۔۔ جواد کے سر اور داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ تعجب سے اپنے اردگر بیٹھے لوگوں کے منہ دیکھے جا رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’جواد، یہ تم نے کیا کیا؟ یہ کوئی حمام ہے؟‘‘ اس کے بعد میں نے اسے اپنا چفیہ دیا تاکہ وہ اپنا سر خشک کر لے۔
*****
ایک دن اطلاع ملی کہ ابراہیم، جواد اور رضا گودینی چند روزہ مہم ختم کر کے سرحدی چوکی کی طرف سے واپس آ رہے ہیں۔ ان کی سلامتی کی خبر سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ شہید اندرزگو کیمپ کے سامنے ہم سب جمع ہو گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو ان کی گاڑی آ کر رکی۔ ابراہیم اور رضا گاڑی سے اترے۔ سب جوان خوشی خوشی ان کے گرد جمع ہو گئے اور گلے ملنے لگے۔ ایک جوان نے پوچھا: ’’آغا ابرام، جواد کہاں ہے؟‘‘ اچانک سبھی خاموش ہو گئے۔ ابراہیم بھی تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد غم و اندوہ سے ڈوبی ہوئی حالت میں بولا: ’’جواد!‘‘ اس کے بعد اس نے آہستہ سے گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک شخص لیٹا تھا جس کے اوپر کمبل تھا پڑا تھا۔ سب جوان خاموش ہو گئے۔ ابراہیم نے کہا: ’’جواد۔۔۔ جواد!‘‘ اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کچھ جوانوں کی تو روتے روتے چیخیں نکل گئیں: ’’جواد، جواد!‘‘ سب گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف گئے۔ سب رو رہے تھے کہ اچانک جواد کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا: ’’کیا ہوا، کیا ہوا؟!‘‘ وہ ہکابکا اپنے اردگرد کھڑے جوانوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سارے جوان اشک آلود چہرے لیے غصے کی حالت میں ابراہیم کی طرف لپکے مگر وہ وہاں سے ہٹ کر جلدی جلدی عمارت کے اندر داخل ہو چکا تھا۔
Comments (0)
Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet
Leave your comments
Posting comment as a guest.
Sign up or login to your account.